چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے میڈیا سے بات چیت کے دوران اس بات کا اعتراف کیا کہ اوورسیز پاکستانیز نے جس طرح ڈیم کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سپورٹ کیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مگر حیرت اور افسوس اس بات کا ہے کہ دوسری جانب ملک میں الیکشن میں حصہ لینے کے حوالہ سے یا کسی بھی سرکاری عہدے پر کسی اوورسیز پاکستانی اپنی خدمات پیش نہیں کر سکتا کیونکہ یہاں اس کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان آجاتا ہے۔ اب کوئی عزت ماب چیف جسٹس سے یہ پوچھے کہ اوورسیز پاکستانیز اپنے بچوں اور اپنی فیملی کے ہمراہ با عزت طریقے سے نہ صرف ملک سے باہر اپنی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ وہ فارن ایکسچینج کی صورت میں ایک خطیر رقم پاکستان بھجواتے ہیں جو پاکستانی کی معیشت کے لئے ایک بہت بڑا سہارا ہے۔ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اوورسیز پاکستانیز پاکستان سے محبت نہیں کرتے۔ انہیں کیا ضرورت ہے، ملک کے لئے ڈیم کی تعمیر میں خطیر رقم جمع کرکے دیں۔ یہ تو اووسیز پاکستانیوں کی وطن سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دیکھا جائے تو اوورسیز پاکستانیز دنیا بھر میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور پروفیشنلز کی حیثیت سے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کسی طور بھی دنیا بھر میں کام کرنے والے افراد سے کم تر نہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بعض شعبوں میں ان کا کوئی ثانی نہیں مگر کہتے ہیں نا کہ ”گھر کی مرغی دال برابر“ جنہوں نے دنیا بھر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہو وہ کس طرح اپنے وطن کے لئے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں اور کیونکر ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگایا جا سکتا ہے؟ دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے اپنی نوکری داﺅ پر لگائی اور آج پاکستان میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور حب الوطنی کی سزا اُٹھا رہے ہیں۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ اووریسز پاکستانیوں نے وطن کی محبت میں واپس جانے کا فیصلہ کیا مگر آخرکار مایوسی کا شکار ہوئے اور پاکستان سے واپس آگئے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جس نے وطن سے محبت کا گیت گایا وہ بھی مارا گیا اور جس نے وطن کو بُرا بھلا کہا اسے بھی یا تو ملک سے بھاگنا پڑا یا پھر وہیں دفن کردیا گیا۔ اختلاف رائے کی اجازت کسی کو نہ دی گئی جس نے حق لکھنا چاہا، ہاتھ کاٹ دیئے گئے، جس نے سچ بولنا چاہا، زبان خاموش کرادی گئی، بانی پاکستان حضرت قائد اعظم تک قید تنہائی میں زندگی گزار کر اور پاکستان بنانے کی سزا اُٹھانے کے بعد خوبصورت مقبرے میں دبا دیئے گئے ان کے ہمراہیوں اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ بھی جو سلوک ہوا۔ جاننے والے جانتے ہیں مگر بولے کون؟ یہاں تو کچھ کہنا اپنی عزتوں کو لٹوانے کا سبب بن سکتا ہے۔ آج کے پاکستان میں طاقت کے بول بوتے پر سب کچھ چل رہا ہے۔ جنہوں نے ایوب خان کو سیلوٹ کیا، انہی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی، جناب بھٹو جب تک آنکھ کا تارا رہے، بہترین قائد رہے، بنگالیوں کو یوں علیحدہ کردیا گیا کہ پوری زندگی حکمرانی ملنے کی توقع نہیں تھی سو مشرق پاکستان کو ذاتی مفادات کی بھٹی میں ڈال کر بنگلہ دیش بنوا دیا گیا بعدازاں بھٹو کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ پھر محترم ضیاءالحق کا سنہری دور شروع ہوا۔ جو نواز شریف کو انگلی پکڑ کر لائے اور نواز شریف کے بابا جان بن بیٹھے۔ جان نشین نے وہ کمالات دکھائے کہ الامان الاحفیظ۔ جب تک آنکھ کا تارا رہے۔ ہر عمل کی جانب سے آنکھیں بند رکھی گئیں۔ مگر پھر اچانک پٹہ کھینچ دیا گیا اور گردن دبوچ لی گئی۔ بھٹو کی علامات کو عوام کے ذہن سے دھندلانے کے لئے محترمہ بے نظیر سے ڈیل کی گئی۔ اور پھر دن دھاڑے خون میں نہلا دیا گیا اور حکومت انہیں دے دی گئی جو محترمہ کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔
آج عمران خان کی صورت میں تازہ کمک دستیاب ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ڈرامہ کا ڈراپ سین کب ہوتا ہے اور نئے منظرنامہ میں کیا سامنے آتا ہے۔ فی الحال تو چوہدری نثار خاموش اور روپوش ہیں۔ عمران خان کو کھلی چھوٹ ہے، اس لئے کہ ملک میں ڈالرز کا فقدان ہے اور کوئی تو ہو جو ملک کو اس معاشی تباہی سے نکالے۔ ملک کے سفید ہاتھی بھوک سے بلبلا رہے ہیں اور انہیں خون کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ نئے چہروں کو دودھ پلا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کب لگتا ہے؟
632