نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 422

حدود بمقابلہ حدود

آئی ایم ایف نے خبردار کردیا کہ پاکستان میں رواں مالی سال مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ پاکستانی معیشت پر آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال مہنگائی آٹھ اعشاریہ سات فیصد جب کہ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ایک اعشاریہ پانچ فیصد ہے اور بے روزگاری کی شرح میں صفر اعشاریہ پانچ فیصد اضافہ ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اگلے سال مہنگائی کی سرح آٹھ فیصد اور اگلے سال کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ایک اعشاریہ آٹھ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ یہ ہے آئی ایم ایف کی رپورٹ جو عمران خان کے وعدوں اور یقین دہانیوں کی پوری طرح سے نفی کررہی ہے اور بینک کی یہ رپورٹ ایک طرح سے عمران خان کو ان کے کئے گئے وعدوں کے لحاظ سے جھوٹا یا پھر ایک ناکام حکمران ثابت کررہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کو اس طرح کی رپورٹوں کو بنوانے یا پھر پبلک کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ خالصتاً حکومتی معاملات ہیں اور ان کی اپنی معاشی پالیسی کا حصہ ہیں کہ وہ اسے کس طرح سے ہینڈل کرتے ہیں، کیا آپ کسی قرض دینے والے کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ وہ ان کے گھریلو معاملات میں مداخلت کرے کہ ان کے بچے کس طرح کے کپڑے پہنیں گے یا ان کی اہلیہ کس طرح سے اپنی سالگرہ منائیں گی وغیرہ وغیرہ۔
قرض دینے والے کا تعلق ان کی رقم کی واپسی کی یقینی بمعہ سود تک ہی محدود ہوتی ہے، اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ہندو بنیے کی طرح سے بوڑھے کی رقم واپسی کی استطاعت نہ ہونے پر وہ اس کی عزت کو میلی نگاہ سے دیکھنے کے مصداق آئی ایم ایف بھی کارروائی کرے مگر اس طرح کی خوف و ہراس اور حوصلہ پست کرنے والی رپورٹیس کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کرنے کے مترادف خیال کی جاتی ہیں یعنی ملک کی معاشی اور اس کے بعد داخلی اور خارجی پالیسیاں تک آئی ایم ایف کے مشورے پر بنائی جائے اگر یہ ہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر آزادی اور غلامی کی ہمیں کوئی اور تعریف بنانا ہو گی اس لئے کہ غلامی کا مقصد صرف کسی کو پابند سلاسل یا سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا ہی نہیں بلکہ پر کاٹ کر چھوڑ دینا بھی ہے یا پھر ذہن سے آزادی کے تصور کو ہی کرچ کر نکال دینا ہے۔ آئی ایم ایف یا پھر دوسرے بین الاقوامی معاشی اداروں کا ملکوں کو غلام بنانے کا یہ ہی طریقہ واردات ہے اور انہیں اپنے ان مذموم مقاصد میں ہمارے ہی میر جعفر اور میر صادق جیسے ناعاقبت اندیش حکمران مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ان کا یہ کردار ملک کو مقروض کروانا ہوتا ہے اس طرح کے حکمرانوں کا یہ ہی آئی ایم ایف جیسے ادارے معمولی شرائط پر بھاری قرضے آنکھ بند کرکے ادا کرتے ہیں ایسا کرتے ہوئے وہ ایک تیر سے دور نہیں بلکہ کئی شکار کررہے ہوتے ہیں ایک تو ان کا ٹارگٹ ملک ان کے جال میں آرہا ہوتا ہے دوسرا ان کا اس ملک کو دیا گیا قرضہ دوبارہ سے منی لانڈرنگ کے ذریعے خود ان کی تجوریوں میں واپس آجاتا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے اربوں روپے غیر ملکی بینکوں میں ڈپازٹ کرنا ہے یہ ایک خطرناک سازش یا چال ہے جو عالمی سامراج نے چلی ہے جن کے مہرے ہمارے اپنے سیاستدان جو جمہوریت کے چیمپئن ہیں اب اگر عمران خان جیسا کوئی حکمران ملک کو ان عالمی معاشی ڈاکوﺅں کے چنگل سے نکالنے کے لئے متحرک ہو چکا ہے تو وہی عالمی معاشی ڈاکو اس طرح کی بوگس رپورٹیس جاری کرکے ایک طرح سے پاکستان میں موجودہ حکومت کے خلاف انارکی پھیلا رہے ہیں۔
مہنگائی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے تو پھر ذکر صرف پاکستان ہی کا کیوں۔۔۔؟ پڑھنے والوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن کی نظر کس پر ہے۔ ہندو ساہوکار کی نظر تو غریب کی جورو یا پھر بیٹی پر ہوا کرتی تھی اس عالمی معاشی ڈاکو کی نظر پاکستان کے کون سے اثاثے پر ہے؟ اگر یہ بات آپ لوگوں کی سمجھ میں آگئی تو پورے کا پورا کھیل ہی آپ لوگ سمجھ جائیں گے کہ کیا ہونے جارہا ہے؟
اور کون کون اس گھناﺅنے اور خوفناک کھیل کا نہ صرف حصہ بن چکا ہے بلکہ اب بھی اس میں اپنا کردار اس لالچ میں ادا کررہے ہیں کہ انہیں ان کی لوٹی جانے والی رقم سے کوئی محروم نہ کرے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے اور انہیں ایک بار پھر وہ اقتدار دلوا دیں تو وہ ان کا یہ ادھورا کام ایک ہی جھٹکے میں پورا کرلیں گے لیکن عمران خان اور ان کی حکومت تمام تر معاشی مشکلات کے باوجود ملک کو ان معاشی ڈاکوﺅں کے چنگل سے نکالنے کے لئے کوشاں ہیں جب کہ آئی ایم ایف نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا معاملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی بتلائی جاتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور اس کا گورنر مدر پدر آزاد ہو کر کارروائی کر سکے گا یا پھر اسے دوسرے خودمختار اداروں کی طرح سے حکومت اور پارلیمنٹ کے علاوہ دوسرے تحقیقات اداروں کے آگے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے، ملک کی خودمختاری کا۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں