امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 135

حقیقی آزادی اور ادارے؟

پاکستانی قوم اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے، قوم ایک فیصلہ کن صورتحال کی جانب تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور بڑھتے بڑھتے ایک ایسے سنگم ایک ایسے دوہراہے پر پہنچ چکی ہے جہاں سے ایک راستہ آزادی، قومی غیرت اور خودداری، خودمختاری کی طرف جارہا ہے تو دوسرا راستہ غلامی اور بے غیرتی کی طرف۔۔۔ قومی غیرت۔
خودداری اور آزادی کی راہ کے دعویدار عمران خان کی تحریک انصاف والے ہیں اور اب فیصلہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام نے کرنا ہے کہ وہ اس راہ کے مسافر بننا چاہتے ہیں اس وقت ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہے اور لوگوں کے دل و دماغ اور ضمیر ہچکولے کھا رہے ہیں، لوگ اپنی بیماریاں بھوک، افلاس اور مہنگائی کے علاوہ سارے دکھ درد بھول گئے، ساری مشکلوں اور مصیبتوں پر آزادی اور قومی غیرت اس وقت غالب دکھائی دے رہی ہے جس کا زندہ ثبوت عمران خان کے ہر جلسے کا ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے۔ اس برق رفتاری سے بدلتی ہوئی صورتحال نے ملکی اداروں کی اصلیت بھی پوری قوم کے سامنے عیاں کردی ہے کہ ان کے ادارے کس مخصوص مائینڈ سیٹ پر کام کرتے ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ ملک کی عدلیہ انصاف اور قانون کی ضامن ہوتی ہے۔ ملکی اداروں کو سیاست اور اقرباءپروری پک اینڈ چوز کی لعنت سے پاک و صاف رہنا چاہئے تاکہ وہ بلا کسی امتیاز کے اپنا کام آئین اور قانون کے مطابق کرسکیں لیکن پوری قوم نے دیکھ لیا کہ کس طرح سے ملکی عدالتیں قیام پاکستان کے بعد پہلی بار رات 12 بجے بھی کھول دی گئیں۔ جس کے بعد جب عوامی سطح پر عدلیہ کے اس طرز عمل پر سخت ترین تنقید کی گئی تو اس کے ردعمل میں جس طرح کے ریمارکس اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے آئے اس سے عدلیہ نے ایک نیا پینڈورا بکس کھول دیا۔ عوام میں عدلیہ کی جو تھوڑی بہت تکریم تھی وہ بھی ختم کردی گئی۔ میں خدانخواستہ عدلیہ مخالف نہیں ہوں، میں تو وہ لکھ رہا ہوں جو اس وقت میں پاکستانی معاشرے میں دیکھ رہا ہوں، قوم میں ایک جنگی جنون سوار ہے ایسے میں ملکی اداروں کو ضرورت سے زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کو اپنے اوپر کی جانے والی تنقید پر اگر اعتراض تھا تو وہ اس کا اظہار کسی اور طریقے سے بھی کرسکتی تھی، یہ کہنے کی ضرورت کیا تھی کہ پندرہ بیس ہزار لوگوں کے سامنے عدلیہ کو برا بھلا کہا گیا، عدلیہ کے یہ ریمارکس یقیناً حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے عوام میں اس طرح کے ریمارکس کا شدید ترین ردعمل آنا ایک فطری امر ہے اور اس کے لئے اداروں کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔
میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ اس فیصلہ کن صورتحال میں ملکی ادارے اور ان کی کارکردگی کھل کر ملکی عوام کے سامنے آچکی ہے کہ کس طرح سے یہ ملکی ادارے آئین اور قانون کی پابند ہونے کے باوجود عمران خان کے بیانیہ کو بے اثر کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سازش نہیں ہوئی اور کوئی تاریخ ساز جلسوں کو معمولی قرار دے کر عمران خان کے مخالف سیاسی جماعتوں کے موقف کو تقویت دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ میرا رتعلق نہ تو تحریک انصاف سے ہے اور نہ ہی میں کوئی عمران خان کا حامی ہوں البتہ میں اس بیانیہ کا ضرور حامی ہوں جو اس وقت عمران خان لے کر چل رہے ہیں کہ ہمیں کسی کی غلامی نہیں کرنی چاہئے ہم ایک آزاد قوم ہیں اور ہمیں اپنی آزادی اور خودمختاری کو ہر حال میں قائم و دائم رکھنا چاہئے۔ ایسے سیاستدانوں کا سوشل بائیکاٹ کرنا چاہئے جو جمہوریت کی آڑ میں ملک دشمنوں کا سہولت کار بن کر ملک کے آزادی و خودمختاری سے کھلواڑ کررہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کو یقیناً اقرباءپروری اور پک اینڈ چوز کے بجائے انصاف اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہر کیس کو ایک ہی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ 24 گھنٹے کے اس عدالت سے صرف مخصوص لوگوں کو ہی مستفیض نہیں کرنا چاہئے، ازخود نوٹس کے اختیار کو بھی ذاتی پسند و ناپسند کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہئے اور اب اس مذاق کو بند کر دینا چاہئے کہ جن لوگوں کو سنگین مقدمات میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیلوں میں ہونا چاہئے، انہیں جمہوریت کے ثمرات کی وجہ سے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر بنوانے کا رسوائے زمانہ طریقہ کار کو اب دفن کر دینا چاہئے اس طرح کے اقدامات سے پوری دنیا میں پاکستان سے متعلق اور ان کے اداروں کے بارے میں کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا بلکہ پاکستان کو جوتے کی نوک پر رکھنے والوں کی اس طرح سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ پاکستان کو مزید غلام سے غلام بنانے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ بدلتے ہوئے پاکستان اور حقیقی آزادی کے لئے اس تحریک کا حصہ بن جائیں جو اس وقت ملک میں چل رہی ہے یہ ہی ایک آزاد اور خوش حال پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں