لگ رہا ہے کہ پاکستان کے حقیقی آزادی کی اس تحریک کی لگامیں یا پھر باگ ڈور ان کے اصل حقداروں کے ہاتھوں میں سونپے جانے کا وقت آگیا ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی سردار لطیف خان کھوسہ سے ہونے جارہا ہے کیونکہ پاکستان نہ تو ان فصلی بٹیرے نما سیاستدانوں کی کاوشوں سے آزاد ہوا تھا اور نہ ہی دم ہلانے والے سرکاری نوکروں کی کسی جدوجہد سے یہ ملک کوئی معرض وجود میں آیا تھا اس ملک کو دنیا کے نقشے پر نمودار یا پھر ابھرنے کا سہرا ایک نامور وکیل کے سر جاتا ہے جسے دنیا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے نام سے جانتی بھی ہے اور پہچانتی بھی ہے اور پاکستان میں پچھلے کوئی سوا سال یا پھر ڈیڑھ سال سے جو حقیقی آزادی کی تحریک چل رہی ہے اب اس تحریک کی اصلیت کو جاننے کے بعد ہی ملک کے نامور وکلاءکی سربراہی میں بہت بڑی تعداد میں وکلاءاس تحریک میں شامل ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے تحریک میں ایک نئی جان اور ایک نئی شدت کے علاوہ ایک نیا جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے یقیناً اس تحریک کو روکنے یا پھر اسے دبانے والوں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ ان میں وکلاءکی اسی جوش و جذبے کو دیکھ کر اپنی شکست اور ہار یقینی نظر آرہی ہے۔
وکلاءکے اس حقیقی آزادی کی تحریک کا حصہ بن جانے سے ملک کی اعلیٰ یا پھر چھوٹی تمام عدالتوں کو ایک حوصلہ ملا ہے، انہیں اخلاقی اور عوامی حمایت کے ملنے کا احساس ہو گیا ہے، یہ بھی وجہ ہے کہ وہ اب اپنے تمام تر فیصلے آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے بے خوف و خطر کررہے ہیں اور پی ڈی ایم کی یہ امپورٹڈ حکومت جس طرح سے پاکستانی عدلیہ کو ہتھیار کی طرح سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کررہی تھی ان کا یہ خواب اب انہیں شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دکھائے نہیں دے رہا ہے لیکن پی ڈی ایم والے بھی اتنی آسانی سے ہار ماننے والے نہیں وہ اپنے ہاتھ آئی اس حکومت کو اتنی آسانی سے جانے نہیں دیں گے۔ وہ اب حکومتی خزانہ وکلاءکی خرید و فروخت پر خرچ کریں گے، وکلاءکو آپس میں تقسیم کریں گے تاکہ ان کی طاقت ختم ہو سکے یعنی وہ لڑاﺅ اور حکومت کرو کے رسوائے زمانہ طریقہ واردات کو اس موقع پر استعمال کریں گے تاکہ حقیقی آزادی کی یہ تحریک جو ایک طرح سے ان کی موت ہے وہ کسی بھی طرح سے اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ پائے۔
اس تازہ ترین اور بدلتی ہوئی صورتحال میں وکلاءبرادری کو چاہئے کہ وہ مکمل یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کریں اور اپنی صفوں میں موجود تاڑرز و تلاش کریں جو میر جعفر اور میر صادق بن کر اس حقیقی آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کریں گے یہ حقیقی آزادی کی تحریک دراصل قانون کی حکمرانی کی ایک تحریک ہے جس سے ملک میں نہ صرف حقیقی جمہوریت آئے گی بلکہ ملک سے وحشیانہ ظلم اور نا انصافی کا بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا اور قانون کی حکمرانی سے ہی ادارے اپنے اپنے اصل مقام پر آجائیں گے اور کوئی خود کو سب سے زیادہ طاقتور خیال کرکے دوسروں کا استحصال نہیں کر سکے گا بلکہ سب پر قانون اور ملک کا آئین غالب رہے گا اور ہر کوئی قانون کی ننگی تلوار کی زد میں آنے سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی غلطی نہیں کرے گا اس لئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے حقیقی آزادی کے اس تحریک کا اپنے منطقی انجام تک پہنچنا بہت ضروری ہے اور جو سیاسی پارٹیاں یا پھر ان کے سہولتکار اس حقیقی آزادی کی تحریک کو اس وقت سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ دراصل قانون کی حکمرانی کے خلاف ہیں کیونکہ قانون کی حکمرانی سے انہیں اپنی موت اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے صاف طور پر نظر آرہی ہے وہ کسی بھی لحاظ سے قانون کی حکمرانی کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ قانون کو ہی تو اپنے مخالفین کے خلاف چابک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
پچھلے ڈیڑھ سال سے حقیقی آزادی کی اس تحریک کو کچلنے کے لئے قانون ہی کو تو چابک کی طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے جس کے خلاف چاہے وہ جتنی ایف آئی آر چاہے درج کرلیں انہیں نہ کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی ٹوکنے والا۔۔۔ اور پولیس کو تو وہ ذاتی ملازم سمجھتے ہوئے اپنی انگلی کے اشارے پر کسی کے بھی گھر پر بھجوا کر اس کی ایسی کی تیسی کروالیتے ہیں یہ سب کچھ قانون کی حکمرانی میں ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے موجودہ حکومت حقیقی آزادی کی اس تحریک کو کچل رہی ہے لیکن اب وکلاءمیدان میں کود پڑے ہیں انہوں نے اس تحریک کی باگ ڈور سنبھال لی ہے اب اس تحریک کو کچلنے والے کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ملک ان شاءاللہ ان سے آزادی حاصل کرکے ہی رہے گا۔
