ریاست جمہوریہ/عسکریہ پاکستان 152

حماس، اسرائیل جنگ

7 اکتوبر کو شروع ہونے والی حماس اور اسرائیل کی جنگ 30 یوم سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہنوز جاری ہے۔ اسرائیل کے سفاکانہ حملوں کے نتیجے میں دس ہزار سے زیادہ نہتے فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ ایک بڑی تعداد ابھی تک ملبوں کے نیچے دفن ہے۔ چار ہزار سے زیادہ معصوم بچے اس ہولناکی کا شکار ہو چکے ہیں اور تاحال اس بربریت کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ کے علاقے میں تمام بنیادی سہولتیں اسرائیل کی طرف سے روک دینے کے بعد غزہ کے دو ملین سے زیادہ کی آبادی انتہائی دشوار کن حالات سے گزری۔ غزہ میں اسپتالوں پر حملوں نے طبی اور امدادی کارروائیوں کو اور بھی کٹھن بنا دیا۔ ابتدائی دور میں تو تمام امدادی تنظیمیں بھی غزہ میں داخل ہونے سے قاصر رہیں، گزشتہ چند دنوں میں مصر کی جانب سے سرحد کھولنے پر کچھ امدادی کارروائیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔
جنیوا کنونشن کے حساب سے شہری آبادی اور اسپتال یا طبی مراکز کو نقصان پہنچانا جنگی جرائم کی مد میں شامل ہوتا ہے مگر اسرائیل اس وقت کسی بھی پابندی یا استدعا سے بے بہرہ نظر آتا ہے جو انسانیت سوز واقعات اس وقت غزہ میں رونما ہو رہے ہیں اس پر عالمی طور پر بھرپور احتجاج سامنے آرہا ہے۔ اسرائیل کے سب سے بڑے حلیف امریکہ میں اس وقت 66 فیصد آبادی موجودہ امریکی حکومت کی اسرائیل نواز پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہے جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کثیر تعداد شامل ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن فرانسیسی صدر میکرون، جرمن چانسلر شولز اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں اور ان تمام سربراہان حکومت نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے جب کہ ان تمام ممالک میں اسرائیل کے جارحانہ حملوں کے خلاف شدید عوامی احتجاج جاری ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیل کے اقوام متحدہ کے مندوب کے حالیہ بیان کے مطابق یہ حملے جاری رہیں گے جب تک تمام مغویوں کو رہا نہ کروالیا جائے۔ حماس کی جانب سے کچھ کو رہا کرنے پر حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی بیٹھکوں کے بعد بھی کوئی مثبت پیش رفت جنگ بندی کے سلسلے میں نہیں ہو سکی اور ان کارروائیوں کے رکنے کی کوئی صورت تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی امدادی تنظیمیں مشترکہ طور پر جنگ بندی کی درخواستیں کررہی ہیں مگر سکیورٹی کونسل کی ممبران حکومتیں اتفاق پر آمادہ نہیں ہوسکیں۔ عرب لیگ نے اس بات پر انتہائی برہمی کا اظہار کیا ہے کہ امریکی حالیہ قرارداد میں جہاں امدادی کارروائیوں کی سفارش کی گئی ہے، وہیں جنگ بندی سے متعلق کوئی شق شامل نہیں کی گئی بلکہ امریکہ نے اسرائیل کی مدد کے لئے فوجی سامان سے لیس بحری بیڑے کو روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس جنگ کے تناظر میں عالمی طور پر خارجہ پالیسیوں کے تبدیل ہونے کے امکانات یقینی طور پر نظر آئیں گے۔ اس وقت تمام مسلم ممالک نے امریکہ اور اسرائیل سے تعلقات ہونے کے باوجود فلسطین کی حمایت میں آواز بلند کی ہے اور جنگ بندی پر اصرار کیا ہے، دیگر کئی ممالک بھی اس وقت خاص طور پر امریکہ کی اسرائیلی حمایت پر سوال اٹھائے ہیں۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن کئی خلیجی ممالک کے دورے کر چکے ہیں مگر کوئی خاطرہ خواہ جواب حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ قطر کی حکومت نے اسرائیلی مغوی شہریوں کی رہائی کے لئے حماس سے ثالثی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مصر نے اپنی سرحدیں کھولیں ہیں، غزہ جو کہ اب اسرائیل نے اپنے زمینی حملوں کی وجہ سے 2 حصوں میں تقسیم کردیا ہے، تک امدادی قافلے پہنچانے کے لئے۔ جب کہ وہ ممالک جنہوں نے 2020ءابراہام معاہدہ کے تحت اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی حامی بھری تھی نے کھل کر اس وقت اسرائیل اور امریکہ کی سخت مذمت کی ہے۔ اردن نے 1998ءمیں اسرائیل سے امن معاہدہ کیا تھا مگر اس وقت مضبوط لہجے میں شاہ عبداللہ نے اسرائیل کی فلسطینیوں پر کارگزاری کو سنگین جرم قرار دیا ہے۔ سعودی عرب، کویت، شام اور عراق نے حماس کے حملہ کی ذمہ داری اسرائیل کی پچھلے 75 سالوں کی فلسطین پر ڈھائے ہوئے مظالم کو قرار دیا ہے۔ بولیویا پہلا جنوبی امریکہ کا ملک ہے جس نے اپنے ملک سے اسرائیلی سفیر کو نکال دیا ہے۔ اس کے بعد کئی اور ممالک نے اس عمل کو اختیار کیا ہے۔ مسلم ممالک بحرین، ترکی اور اردن نے اپنے سفیر اسرائیل سے واپس بلا لئے ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ ابھی تک مسلم ممالک سے کوئی ایسی مضبوط اور سخت حکمت عملی سامنے نہیں آئی جو وقت کا تقاضا ہے یا فلسطینیوں کو جس کی توقع تھی۔ صرف جنگ بندی کے تقاضے یا امداد روانہ کر دینا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس وقت جو صورت حال ہے وہ متقاضی ہے ایک انتہائی زیرک ڈپلومیسی کی جو فلسطین کی آزاد سیاست کا راستہ ہموار کر سکے، یہ وقت ہے کہ عالمی طور پر اس مسئلہ کو بھرپور طور پر اٹھایا جائے اور اس کو ایک فیصلہ کن نتیجے پر پہنچایا جائے۔ جنگ بندی ایک وقتی ریلیف ہے، مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے فلسطینیوں پر تسلسل سے جاری رہنے والے مظالم کا خاتمہ نہیں ہو گا اور غزہ اور مغربی کنارے میں امن قائم نہیں ہوگا۔ اس وقت تمام عالمی قوتوں کو 2 آزاد ریاستوں کا تعین کرنا چاہئے۔ حماس اور فلسطین تو 1948ءکے وقت کی سرحدوں کے خواہاں ہیں۔
مسلم ممالک اس وقت اس جنگ کے ساتھ ساتھ باہم سیاسی تنازعات کا شکار نظر آتے ہیں اور اپنے مفادات اور سالمیت کے خطرے میں گھرے ہونے کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جو اپنی جوہری طاقت اور مضبوط فوج کی وجہ سے اسلامی ممالک میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے، اسرائیل اور حماس کی جنگ سے متعلق ایک معنی خیز خاموشی میں مبتلا نظر آتا ہے، فلسطین کے متعلق موقف یا اسرائیل کو امریکہ کے ایما پر تسلیم کرلینے کی مجبوری اس کی وجہ نظر آتی ہے۔ کمزور حکومتیں مجبور ہوتی ہیں، سیاسی عدم استحکام اس کی بڑی وجہ ہوتی ہے۔ سعودی عرب نے تل ابیب سے اپنے تعلقات منقطع کرلئے ہیں، ایران اور لبنان کو حماس کا مددگار قرار دیتے ہوئے اسرائیل نے انہیں بھی حملوں کی لپیٹ میں لے لیا ہے اگر اب بھی مسلم ممالک نے ایک باہمی حکمت عملی نہیں اپنائی تو شاید تاریخ کے اوراق میں یہ موجودہ جنگ کسی اور بھیانک جنگ کے طور پر لکھی جا سکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں