بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 622

حو ّا کی بیٹی

عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اُسے بازار دیا
جب جی چاہا اُسے مسلا، کچلا
جب جی چاہا دھتکار دیا
نظام قدرت ہے کہ جب انسان کی تخلیق شروع ہوئی ہے تو وہ عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ 9 سال تک وہ جہاں نشوونما پاتا ہے وہ عورت ہی ہوتی ہے پھر جب وہ اس دنیا کی فضاﺅں میں پہلی سانس لیتا ہے تو بھی پہلی نظر جس ہستی پر پڑتی ہے وہ عورت ہی ہوتی ہے۔ اسے گرم آغوش دینے والی اور اس کی پرورش کرنے والی بھی عورت ہی ہے مگر نہ جانے کیوں زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد اور شعور کی بلندیوں پر فائز ہونے کے بعد مرد کی نظروں میں اسی عورت کے لئے ہوس اپنے پاﺅں جما لیتی ہے۔ وہی عورت ماں بہن بنتی ہے تو اور ہوتی ہے اور محبوبہ اور بیوی بنے تو اسے دیکھنے سننے اور سمجھنے کا انداز تبدیل ہوجاتا ہے۔
اس دنیا میں جہاں مردوں کو فوقیت حاصل ہے، عورت کو نچلے درجے پر رکھا گیا جب کہ ہمارے رسول مقبول نے دین اسلام کے ذریعہ عورت کو جو عزت و مقام عطا کیا وہ دنیا کے کسی مذہب کا شیوا نہیں رہا۔ پاکستان جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے تعبیر کرتے ہیں اور جہاں تمام مسلمان بستے ہیں جو ہمارے رسول کی حرمت پر کٹ مرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اس قدر سفاک اور ظالم ہو چکے ہیں کہ کسی بھی حوا کی بیٹی کو اکیلا دیکھ کر ان کی رال ٹپکنے لگتی ہے اور وہ اس کے سر کی چادر اتارنے کے درپہ ہو جاتے ہیں۔
حال ہی میں لاہور سے گوجرانولہ جانے والی وٹر وے پر ہونے والے حادثہ نے پوری قوم کو لرزا دیا ہے مگر ہم کب تک صرف اور صرف لرزتے رہیں گے، کب تک مذمتی بیانات دیتے رہیں گے، کب تک فیس بک اور ٹیوٹر پر بیٹھ کر گالی و گفتار کریں گے۔ ہم عملی طور پر کب باہر نکلیں گے۔ ان بدمعاشوں، سفاکوں اور درندوں کے خلاف جو ہر چند ہفتوں بعد کچھ نہ کچھ ایسا ضرورت کرتے ہیں جس سے پاکستان میں عزت اور خاموشی سے تمام مسائل اور مصائب میں زندہ رہنے والے لوگ چلا اٹھتے ہیں۔ ننھی اور معصوم زینب جس کی نہ صرف آبروریزی کی گئی بلکہ اس کے ہاتھ پاﺅں توڑ کر اسے کچرا کنڈی میں پھینک دیا گیا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ آئے دن کی زیادتی ان کے اغواءاور نہ جانے کیا کیا۔ آج پاکستان کو چھوڑے تقریباً 25 سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ کبھی اپنے بچوں اور بچیوں کی جانب سے یہ خوف محسوس نہیں ہوا کہ کہیں اسکول کالج یا پھر راستے میں کوئی انہیں تنگ کرے، ان کی بے حرمتی کرے، ایک ایسے ملک میں جہاں کلمہ گو نہیں رہتے جہاں ایسے لوگ آس پاس رہائش پذیر ہیں جو ہمارے ملاﺅں کی کتابوں میں واجب القتل ہیں مگر زندگی گزارنے کا جو سبق یہاں رہ کر سیکھا، انسانیت کا جو درس انہوں نے دیا۔ وہی ہے جو ہمارے پیارے رسول نے ہمیں دیا۔ انسان تو انسان جس قدر پیار یہاں جانوروں سے کیا جاتا ہے وہ نہ قابل بیان ہے۔
فرانس سے پاکستان کی سرزمین پر جانے والی خاتون کا رات میں پراعتماد طریقہ سے نکلنا وہیں کے ایمان کی دلیل ہے کہ وہ بے پرواہ ہو چکی تھی کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے درمیان، اپنے کلمہ گو بھائیوں کے درمیان ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ہو بھی گیا تو وہ اکیلی نہیں مگر وہ یہ بھول گئی کہ دنیا بھر میں وہ اکیلی گھوم سکتی ہے مگر پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے درمیان ایسا کرنا سنگین غلطی ہو گی۔ دل کانپ جاتا ہے یہ سوچ کر کہ کسی اکیلی عورت کو اس کے معصوم بچوں کے ساتھ دیکھ کر جنہیں رحم نہیں آیا۔ جنہیں خدا کے غضب کا کوئی خوف نہیں ہوا، جنہوں نے نہیں سوچا کہ ان کے دونوں کندھوں پر جو اللہ تعالیٰ کے نمائندے موجود ہیں۔ ان کا لکھا ان کے لئے مستقبل میں کن مشکلات کو جنم دے گا۔ ہر چیز سے بے نیاز، عاجزی اور انکساری سے دور، سفاکیت کی معراج پر فائز ان افراد نے خواہ وہ پولیس والے ہوں یا ان کے حواری یا پھر کوئی اور، کیسے اور کیونکر انسانیت کی معراج سے اس قدر گر گئے کہ ایک ماںکو اس کے معصوم بچوں کے سامنے بے حرمت کردیا۔ وہ جو اپنے بچوں کو دین اسلام کی تعلیمات دلانے اپنے مادر وطن گئی تھی۔ اس کا تجربہ کیا رہا اس کے بچوں کا پاکستان میں تجربہ کیسا رہا۔ اگر یہ بچے کل پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا دیں تو کیا انہیں غدار وطن کہنا مناسب ہو گا؟ سوچنا ہو گا پاکستان کے مقتدر حلقوں کو کہ وہ اپنی نئی نسل کو اور دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ ملک کے حب الوطن لوگ جو دنیا بھر کے ممالک میں آرام و آسائش کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے وطن اور ہم وطنوں کی فکر میں غرق ہوتے رہتے ہیں، ہر مشکل اور آفت کی گھڑی میں پاکستان پر اپنی خون پسینہ سے کمائی رقم وار دیتے ہیں۔ کیا اسی سلوک کے مستحق ہیں؟ اگر موجودہ حکومت بھی اس معاملہ کی تہہ تک پہنچنے میں اور اس مظلوم عورت کی داد رسی میں ناکام رہی تو پھر بدترین اور تاریک مستقبل پاکستان کا مقدر ہوگا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں