۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 179

خاکم بادھن

اسلام کے نام پر حاصل کی ہوئی ایک ریاست پاکستان کے ساتھ بھی آج ماضی کی تاریخ دھرائی جا رہی ہے۔ دنیا میں قائم ہوئی یہ ریاست جسے اس کی تشکیل کے بعد سے ہی غیروں سے زیادہ اپنوں نے اپنی ہوس، ہرس اور لالچ کے ذریعہ نیست و نابود کرنے کی کوشش کی اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازشیں مگر اللہ کے فضل سے کچھ افراد نے قائم و دائم رکھا مگر ہمارے حکمرانوں کی بد اعمالیوں اور عوام نے ایک طبقے کی بے حسی نے اس ملک خداداد کو دولخت کردیا مگر آج ایک مرتبہ پھر ماضی کا بھوت اس ملک پر سایہ فگن ہے اور اسے ختم کرنے کے درپے ہے اور یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جب اللہ اور رسول کے نام لینے والوں کو غیروں اور اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو، پاکستان میں آج وہی ہو رہا ہے جو صدی قبل سلطنت عثمانیہ جو پوری دنیا کے مسلمانوں کو خلافت کے تحت متحد کی ہوئی تھی کے خاتمے کے وقت ہوا تھا۔ پاکستان تو ایک اس کے مقابلے میں کونے کے برابر ہے۔ سلطنت عثمانیہ لاکھوں مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ریاست تھی۔ اس عظیم مملکت عثمانیہ کی معیشت کے ساتھ کیا کچھ ہوا اس کی تصویر میں آج کے پاکستان کی مماثلت دیکھ لیجئے۔
ریاست جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، زراعت اور صنعت و حرفت میں یگانہ روزگار ہے، افرادی قوت میں بے مثال تھی، اسے اپنے غلط منصوبوں اور غیر پیداواری رویوں کے تحت یورپی ممالک سے قرض لینے کی ضرورت پڑ گئی گویا اس وقت کے عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے۔ اس کی ضرورت اپنے غیر ضروری اخراجات، اللوں تللوں اور شاہی فضول خرچیوں کے باعث پیش آئی اور اس قرض کا وہی ہوا جو ہمارے ساتھ ہوا، اخراجات بڑھنے لگے اور قرض پر قرض لیا جاتا رہا۔ جو اتنا بڑھ گیا کہ اس کو ادا کرنے کے لئے مزید قرض لئے جاتے رہے اور یورپی ممالک اس ہندو بنیے کی طرح میاں صاحب کو قرض پر قرض دیتے رہے کہ اگر ادا نہیں کریں گے تو سونے کی چڑیا یعنی مملکت عثمانیہ پر قبضہ کرلیں گے جب کہ اشرافیہ کی ہوس دولت کی پیاس بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی وہ اپنے ذاتی خزانوں کو قرض کی دولت سے بڑھائے چلے جارہے تھے۔
جب کہ عوام بھی بجائے اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کے عیش و آرام میں اپنا تعمیری کردار فراموش کر گئے تھے۔ اربوں پونڈ ڈالر آرہے تھے اور بے دریغ لٹائے جارہے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرض کے سود کے لئے بھی قرضے لینے کی ضرورت آگئی اور اس کے لئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھنے لگا۔ اشیاءصرف مہنگی سے مہنگی تر ہوتی چلی گئیں اور لوگوں کو روٹی کھانا محال ہو گیا، آئے دن مہنگائی اپنے پر پھیلاتی رہی اور عوام کی زندگی عذاب ہو گئی۔ حکومت آئے دن منی بجٹ پیش کر کرکے ٹیکسوں میں اضافہ کرتی رہی اور لوگ مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہو گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ایک وقت میں دنیا کی طاقت ور ترین مملکت دیوالیہ اور دنیا کی خوشحال ترین قوم بدحالی کا شکار ہو گئی۔
داخلی صورت حال اور معیشت زبوں حالی کا شکار تھی، بیرونی برآمدات صفر پر آگئیں، درآمات دن بدن بڑھنے لگیں اس طرح قومی خسارہ اس حد پر پہنچ گیا کہ اسے پورا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں تھا اور جو تھوڑا بہت زرمبادلہ آتا وہ سود کی مد میں چلا جاتا چنانچہ ”رمضان“ 1875 میں ”عظیم ترین سلطنت عثمانیہ نے جو لاکھوں کلو میٹر میں پھیلی ہوئی تھی نے اعلان کردیا کہ ہمارے پاس قرضے ادا کرنے کے وسائل نہیں ہیں اور وہ دیوالیہ ہو گئی ہے (آج رمضان 10 تاریخ ہے کیا تاریخ اپنے آپ کو دھرانے جارہی ہے) یہ اعلان دراصل سلطنت کا جغرافیائی سقوط کی ابتداءتھا جب کہ اس کی معاشی خودمختاری کا خاتمہ تو کئی رمضانوں قبل ہو چکا تھا جب بددیانت ڈاکو اور لٹیرے حکمرانوں نے اپنے اپنے خزانے بھر کر دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرلی تھی۔ اس کے بعد وہی ہوا جو آج ہو رہا ہے، قرض دینے والے ممالک نے سلطنت عثمانیہ کی پالیسیاں اپنے اپنے مفادات کے تحت ترتیب دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔
انہوں نے عوام پر ٹیکس لگانے، کب اور کہاں اور کتنا کے فیصلے کئے اور سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کو اس میں دخل اندازی کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ چنانچہ اس کے چند ہی سال کے بعد 1881ءمیں سلطنت عثمانیہ نے مجبور ہو کر اقتصادی سرنڈر پر دستخط کر دیئے جسے فرمان محرم کا نام دیا گیا (آج کے رمضان اور محرم کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟) اور آج کی طرح اس وقت بھی حکومت اختیار ان کے مرکزی بینک پر ضم کردیا گیا اب اس مسلمانوں کی مملکت عثمانیہ کا پورا اقتصادی ڈھانچہ اغیار کے ہاتھ میں تھا جس کے ماہرین یہ طے کررہے تھے کہ وہی پالیسیاں بنائیں گے، ٹیکس کا لیں گے اور ٹیکس وصول کریں گے، یورپ کے ممالک نے جو کل تک سلطنت عثمانیہ کے سرنگیں تھے ریاست کے اندر ریاست قائم کرلی، بندرگاہوں سے لے کر مارکیٹ تک ان کی پالیسیاں چل رہی تھیں اور ایک متوازی نوکر شاہی مسلط کردی گئی (گوادر اور سی پیک بھی مدنظر رہے)۔ مملکت کے ترقیاتی کاموں کے لئے ان سے اجازت طلب کی جاتی اور اس کے لئے عوام پر نئے نئے ٹیکس لگا کر عوام کو مزید زیربار کیا جاتا اس کے ساتھ ساتھ ملکی صنعتوں کو تباہ کردیا گیا۔ باہر سے سستا مال اور مصنوعات درآمد کرکے ملکی سائل کو بے دست و پا بنا دیا گیا (آج سبزی ترکاری سے لے کر اشیاءعیش و عشرت تک چینی مصنوعات کا دور دورہ ہے) سلطنت میں غیر ملکی مشیروں کا اندرون، اور اہلکاروں کی تعداد ملکی افراد سے بڑھ گئی، مقامی افراد محض عوام سے ٹیکس وصول کرنے اور انہیں قابو میں رکھنے کے لئے مقرر کئے گئے اور ٹیکس سے حاصل رقم قرضوں کے سود اور ادائیگی کے لئے روانہ کردی جاتی۔ ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہو گئے اور عوامی مفادات سے ادارے تباہ ہو گئے اور یہ پہلا موقعہ نہیں تھا اس سے قبل مغلوں کے ساتھ بھی یہی واردات ہو چکی تھی اور مغلوں کی طرح سلطنت عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہو چکا تھا۔ اور اس کی بندر بانٹ میں دوسرے مذاہب اور غیر ہی نہیں بلکہ اس بہتی گنگا میں ”برادران اسلام سعودیوں نے بھی خوب ہاتھ دھوئے بلکہ ڈبکیاں لگائیں۔ انگریزوں کے ساتھ مل کر پوری عرب کی وحدت کو ٹکڑوں میں تبدیل کردیا اور اسلام کے سینے پر اسرائیل جیسے ناسور کو مسلط کردیا)۔
اب ذرا آ جائے پاک سرزمین شاد و آباد کی طرف جسے چند مفاد پرستوں نے غیر ملکی آقاﺅں کی مدد اور ان کے سرمائے سے ”پاک سر زمین“ ”ساز باز“ میں تبدیل کردیا ہے۔ آج ہمارے حالات بھی بالکل سلطنت عثمانیہ کی طرح ہیں، بالکل کہنا چاہئے کہ ہم اس کا ”ری پلے“ کا کردار ادا کررہے ہیں۔
نوٹ: حوالے جات مستعار لئے گئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں