کراچی (فرنٹ ڈیسک) حکومت نے وفاقی بجٹ پیش کر دیا۔ ماہرین معیشت نے کہا ہے کہ خرچے کم کریں، آمدنی بڑھائیں، قرضوں کی ری پروفائلنگ کریں، سابق چئرمین آف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ قرضوں کی ری پروفائلنگ کرنی پڑے گی، 6 مہینے سے آئی ایم آف کے ساتھ پنگ پانگ کھیل رہے ہیں، اس کو بند کریں ، ملک میں 30 لاکھ انڈسٹریل اور کمرشل کنکشن ہیں جو پاکستان کے سرکاری اداروں سے بجلی اور گیس لے رہے ہیں ، لیکن سیلز ٹیکس ادا کرنے والے 70ہزار یا اس سے بھی کم ہیں ، شبر زیدی نے کہا کہ جو لوگ بجٹ تیار کررہے ہیں ان کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے، اس پر آپ پردہ ڈالنا چاہتے ہیں تو ڈال لیں لیکن آپ یہ پردہ ڈال نہیں سکتے، ماہر معشت خاقان نجیب نے کہا ٹیکس پر بات ہوتی ہے لیکن اخراجات پر بات نہیں ہوتی، حقائق پر مبنی بات نہ ہوئی تو ایک سال بعد نمبرز دیکھ کر سب حیران ہوجائیں گے، سابق صدر کے سی سی آئی انجم نثار نے کہا کہ بہت مشکل ہے کہ ہم نو ہزار دو سو ارب کا ٹیکس ہدف حاصل کرسکیں، اگر حاصل بھی کرلیں تو وہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گا، معاشی تجزیہ کار محمد سہیل نے کہا بدقسمتی سے یہ ایک نارمل بجٹ پیش ہونے جارہا ہے، سب سے بڑا مسئلہ 22 بلین ڈالر کی ادائیگی کا ہےی، 22 بلین ڈالر کی پیمنٹ کیسے ہوگی؟ اگر اس کی پیمنٹ نہ ہوئی تو کرنسی مزید گر جائے گی، ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ جتنے ٹیکس یہ لگا سکتے تھے لگا چکے، اب مزید کی گنجائش نہیں۔ سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بجٹ کو آئی ایم ایف کی توقعات کے مطابق کہہ سکتے ہیں، ہم بہت بری جگہ پر پھنس گئے ہیں جہاں پر ہمیں صرف سود دینے کیلئے قرضہ لینا پڑرہا ہے ابھی تو ہم اپنے اخراجات کا ایک روپیہ بھی meet نہیں کرسکے،خصوصی ٹرانسمیشن میں ماہرین معاشیات اشفاق تولہ ، گوہر اعجاز اور مزمل اسلم نے بھی اظہار خیال کیا۔ماہر معاشیات محمد سہیل نے کہا کہ بجٹ میری توقعات کے برعکس نہیں ہے مگر میری خواہشات کے برعکس ہے، کیونکہ یہ نارمل بجٹ پیش کردیا گیا، ساڑھے چھ فیصد فسکل خسارے کا ٹارگٹ اس ٹائم پر جب بحران ہے، آئیڈیل طور پر یہ ہوتا کہ خرچے کم کیے جاتے یا کم از کم contain کیے جاتے، یہاں 35 فیصد تنخواہیں بڑھادی گئی ہیں سولہ گریڈ کے افراد کی اور تیس فیصد تک باقیوں کی جس میں rich لوگ شامل ہوں گے ان کی بھی تنخواہ تیس فیصد بڑھی ہے، دوسری جانب ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 9ہزار 200 زیادہ ہوتا ہے، میرے خیال میں فسکل خسارہ پانچ فیصد سے کم ہوتا، اب یہ دیکھنا ہے کہ آئی ایم ایف کا جو ٹارگٹ ہے Primary Deficit کا اس کے قریب ہے، حکومت نے 0.4 رکھا ہے،مگر فسکل خسارہ مجھے لگتا ہے پرابلم پیدا کرے گا، آنے الے دنوں میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے اس کا کیا رسپانس آتا ہے، میں نے ڈیبیٹ میں آئیڈیل سچویشن کی بات کی تھی مگر وہ آئیڈیل سچویشن پاکستان میں آج نہیں ہوتی اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے جاکر لینڈنگ ایجنسیز اس پر خوش ہوجاتی ہیں جو پرائم منسٹر صاحب بھی پرامید ہیں لیکن اگر وہ خوش نہیں ہوتیں تو اسے آنے والے وقت میں revise کرنا پڑے گا۔ماہر معاشیات خاقان نجیب نےکہا کہ جس دن بجٹ شروع کریں گے اگر مارک اپ کی ساری پیمنٹ کردیں تو میرا خیال ہے 500ارب روپے وفاق کو borrow کرنا پڑے گا، اگر میں یہ سارے نمبر مان بھی لوں تو 416 ارب روپے borrow کریں گے اور صرف مارک اپ پے کریں گے، میری تو پہلی امید یہ ہے کہ آپ کو Debt Reprofiling کا ایک طریقہ کار پیش کرنا چاہئے تھا، آپ کو اس کے ساتھ ساتھ جو پچیس ارب ڈالرز اگلے سال collect ہونا ہیں چلیں اس میں سے میں 9 ارب ڈالرز چھوڑ دیتا ہوں تو 16 ارب ڈالرز کا منظر نامہ پیش کرنا چاہئے تھا آپ ذرا غور سے دیکھیں جو آپ کا نان ٹیکس ریونیو ہے جو 83 فیصد آپ بڑھارہے ہیں 1600 سے اس کو 2963 پر لے جارہے ہیں، پی ڈی ایل بھی بڑھ رہا ہوگا جو میرا نہیں خیال ممکن ہوگا، نان ٹیکس میں آپ نے بہت بڑا جمپ اسٹیٹ بینک کے پرافٹس کوبھی دیا ہوگا، یہ 2963 is a higher number۔ اس کی جگہ آپ کو یہ جو 9200 ارب روپے کا نمبر تھا اس میں جو ہم Progressivity of taxation ہمیشہ کہتے رہے ہیں اس کو بڑھانا چاہئے تھا، اگر آپ بجٹ کا خسارہ شروع سے ہی ساڑھے چھ فیصد پر کریں گے، پچھلے بجٹ کا خسارہ پانچ فیصد پر شروع کیا تو سات فیصد پر ختم کیا، یہ ابھی بھی expentionary budget ہے، انکم سپورٹ صرف 470ارب روپے گیا ہے میری امید اس سے بہت زیادہ ہے، آپ نے بہت بڑھادیا ایک سے بائیس کو 30 فیصد آپ نے بڑھائی تنخواہیں وہ بھی I think at this stage اور آپ یاد رکھیں ان کوہم ایک ایگزیکٹو الا¶نس بھی دے چکے ہیں، I think thought کا جو عنصر ہے، پنشن میں بھی اگر آپ دیکھیں۔ماہر معاشیات اشفاق تولہ نے کہا کہ جو کچھ ٹیکسیشن پروپوزل وغیرہ تھے اور جس پروپوزلز کو ہمیں لے کر چلنا تھا آپ نے دیکھا ہوگا انہوں نے وہاں ٹیکسز لگائے جہاں پر ونڈ فال گینز کی باتیں ہورہی ہیں، نارملی کہیں پر کوئی ایسا Taxation Measure نہیں لیا اور اسی لیے آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ میزانیہ آپ کا 7ہزار 400بلین پر فسکل خسارہ آئے گا، میں نہیں سمجھتا اس میں کوئی بہت بری بات ہے، مہنگائی کو دیکھتے ہوئے آپ دیکھیں usually پرائیویٹ سیکٹر میں بھی یہ چیزیں بڑھی ہیں، جیسے آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن سال کی بات نہیں ہوتی ہے نارملی بھی پندرہ سے بیس فیصد تنخواہیں بڑھتی ہیں، مگر اس مرتبہ آپ دیکھیں تو آپ کی مہنگائی 38فیصد پر ٹچ کرگئی تھی اور نیچرلی 19کی ایوریج رہے گی، اس کے بعد اگلے سال آپ نے خود بتایا کہ اکیس فیصد کی انفلیشن ہونی ہے تو اس لیے یہ وقت کی ضرورت تھی،یہ بیسک سیلری پر اضافہ ہوتا ہے ٹوٹل سیلر ی پر اضافہ نہیں ہوتا ہے، میں نہیں سمجھتا یہ مجموعی طور پر 35فیصد ہے یہ 17.5فیصد اضافہ ہوگا۔دو تین چیزیں اچھی ہوئی ہیں مجھے خوشی ہے کہ میں اس کا حصہ رہا ہوں، آپ دیکھیں گے کہ کچھ فکس ٹیکس رجیم تھی ہمارے انکم ٹیکس آرڈیننس کے اندر 236 کے اندر۔ ان کا دائرہ وسیع نہیں کیا گیا مگر اس کے lieu میں ایک فیصد کا ٹیکس ان پر لاگو ہوجائے گا، اس طریقے سے ان کی جو ڈیمانڈ تھی کہ رقبے کے حساب سے ٹیئر ون کا جو رقبہ ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے انہیں کافی ہراسمنٹ محسوس ہوتی تھی وہ ہم نے نکال دی ہے، اب یہ سارے کے سارے تاجر اپنی ایک Simplified Return جمع کروائیں گے جو ڈاکومنٹیشن کیلئے آپ کو بہت بہترین مواقع فراہم کرے گا، آپ نے دیکھا ہوگا ایک جو اسٹڈی آئی ہوئی تھی جس میں پی بی سی نے کیا تھا اور سی پی بی آر نے کیا تھا۔ تاجروں کے جو بل آرہے ہیں، ہم نے انہیں کہا کہ آپ ریٹرن فائل کریں، پہلے ڈاکیومنٹیشن کے زمرے میں تو آئیں ہمیں پتا تو چلے۔ ان سب باتوں پر مذاکرات ہوئے ہیں اور میں خود ان مذاکرات کو ایف بی آر کی طرف سے لیڈ کررہا تھا، میں آپ کو بتاتا ہوں all are very happy ان کی جو جینوئن ڈیمانڈ تھی وہ ہم نے پوری کی اور میرا خیال ہے اب وہ نیٹ کے اندر آئیں گے، ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہم نے انہیں کچھ معاف کیا ہے، ویسے بھی ان کا جو 236میں ٹیکس کٹتا تھا میرا خیال ہے عمران خان کے دور میں شروع ہوا تھا، اس سے پہلے بھی ہم کرتے تھے مگر اس کو reduction انہوں نے کردی تھی،بالکل اسی پیٹرن پر چھوٹے تاجروں پر ہم across the board ایک چھوٹا تا ٹیکس لگا کر ان سے وہ ٹیکس لیں گے اور وہ باقاعدہ ریٹرن فائل کریں گے، ہمیں پتا تو چلے کہ ان کا ٹرن اوور کیا ہے۔
122