بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 612

خوفناک صورتحال

سوشل میڈیا ایک نئے ڈرامے کو اپنے اندر سموئے جلوہ گر ہے، کہیں ارشد ملک کی بے ہودہ ویڈیوز گھوم رہی ہیں تو کہیں فوج کے سربراہ کے 22 سالہ صاحبزادے کی لاہور میں 11 ارب کی پراپرٹی کی بات ہو رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہوں یا دیگر فوجی افسران، ان کے ذاتی معاملات کو ایک خاص پلاننگ کے تحت اُچھالا جارہا ہے۔ بظاہر تو یہ دیکھنے میں معمولی سی بات لگتی ہے مگر اس کے پیچھے جس گہری سازش کے سائے منڈلا رہے ہیں وہ بہت ہی خطرناک پس منظر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ہماری عدلیہ اور فوج کے بارے میں یہ تمام کچھ کیوں ہو رہا ہے اور کون کررہا ہے، یہ نہایت توجہ طلب ہے۔ یہ بڑے بڑے لوگوں کا باہمی تناﺅ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمارے یہاں جس طرح آج کل میڈیا اور بولنے والے صحافیوں پر بندش ہے اُس نے دیگر فورم کو فعال کردیا ہے۔ آج ہم کچھ چھپا نہیں سکتے، اور یوں پردے اُٹھ رہے ہیں۔ لوگ سامنے نہیں آرہے مگر حقائق کو سامنے لایا جارہا ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ وجہ بھی دُرست ہے کہ چند صحافیوں نے ایک خاص مقصد کے تحت فوج کو بدنام کرنے کی مہم چلا رکھی ہے جو کہ کسی طور مناسب نہیں۔ دوسری جانب فوج بھی پاکستان اور حب الوطنی کی آڑ لے کر جس طرح میڈیا اور دیگر بولنے والوں کی زبان بندی کررہی ہے، کسی طور مناسب نہیں۔ فوج کا خوف دن بدن لوگوں کے اندر سے نکلتا جارہا ہے۔ ہماری فورسز کو بندوق کی نوک پر اپنے عوام کو ڈرانے کے بجائے چھوٹے صوبوں کے حقوق دے کر اور اپنی محبتوں کی مثال پیش کرکے عوام کو گلے لگانا ہوگا۔ وگرنہ پاکستان زندہ باد اور پاک فوج ز ندہ باد کے نعرے لگانے والی یہ عوام نہایت جذباتی ہے۔ یہ محبت بھی بے لوث کرتی ہے اور نفرت بھی شدید۔ چنانچہ ہمیں اپنی حکمت عملی انصاف کے اصولوں پر رکھنا ہوگی۔ ہمیں اداروں میں مداخلت ختم کرکے چیزوں کو دُرست سمت میں ڈالنا ہوگا۔ عمران خان کے ذریعہ اگر سابقہ حکمرانوں کے گھناﺅنے کرداروں کو سامنے لایا گیا ہے تو انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر نئی نسل کے لئے سچائی اور ایمانداری کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ حق و انصاف کے ساتھ پورے ملک کے رہنے والوں کو اپنا بنانا ہوگا۔ اکثریتی صوبہ کو اقلیت کے معاملہ میں خلوص و محبت کا معاملہ کرنا ہوگا۔ بندوقیں اپنے ملک کے عوام پر نہیں بلکہ سرحدوں پر نکالنا اور دکھانا ہوں گی۔ تب ہی کسی بہتری کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ وگرنہ ایک حد تک تو بندوق کی نوک پر فیصلہ کئے جاسکتے ہیں مگر اب جس رُخ پر حالات جا رہے ہیں وہ بند گلی ہے اور ہمارے فیصلے اگر ہمیں بند گلی میں لے گئے تو پھر نہ عدلیہ بچے گی، نہ فوج، نہ عوام اور نہ سیاستدان۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسے گا۔ بے ایمان کے ساتھ ایماندار بھی مارے جائیں گے اور نظر یہی آرہا ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر ہم پر بات آئے تو ملک ہی نہ بچے۔ نہ رہے بانس، نہ بچے بانسری، ایسا ہوا تو ہمارے ملک کی فوج کس سے لڑے گی۔ کس کے لئے لڑے گی۔ کہاں اپنی شان دکھائے گی اور کسے بندوق سے ڈرائے گی۔ اب بھی وقت ہے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم دُرست کررہے ہیں؟ ہمیں اپنا قبلہ دُرست کرنا ہوگا۔ اگر ہم ملک کو سلامت دیکھنا چاہتے ہیں، وگرنہ صرف دعاءکے لئے ہاتھ ہی بلند کئے جا سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں