عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 155

خوف کا بُت اور پاکستان

پاکستان پچھلے 8 ماہ سے جاری اس لاقانونیت کی اصل وجہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے بجائے ”جنگل کے قانون“ کا رائج ہونا ہے اور وہی عناصر ملک میں رولز آف لاءیعنی قانون کی حکمرانی کے خلاف ہیں اور اس کی راہ کی سب سے بڑی دیوار ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر اور قانون کو اپنے قدموں کی ٹھوکر خیال کرتے ہیں اور ریاست میں ریاست چلا رہے ہیں جو دراصل بلاشرکت غیرے ملک پر 75 برسوں سے حکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں، وہ خود کو کسی کے آگے جواب دہ خیال کرنا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔
قارئیں سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ کن کی طرف ہی، میں کسی ایک کو اس کا مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا کیونکہ لاقانونیت کے اس کھیل تماشے میں سارے ہی با اختیار سرکاری ادارے ملوث ہیں، کسی کا حکمرانی میں کم اور کسی کا زیادہ حصہ ہے، ایک دوسرے سے تعاون کئے بغیر یہ ریاست میں ریاست قائم کرنے کے عل کو لے کر آگے بڑھ ہی نہیں سکتے جس کی تازہ ترین مثال ملک کے ایک 74 سالہ سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف برق رفتاری سے ملک بھر میں مقدمات کا اندراج اور گرفتاری ہے، اتنی تیز رفتاری سے تو مقدمات ان ترقی یافتہ ملکوں میں بھی درج نہیں ہوتے جہاں آن لائن یہ سروس میسر ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں تو لٹنے والے، مرنے والوں کے حقیقی مقدمات کتنی مشکلوں، کتنی تگ و دو، بعض اوقات تو عدالتی مداخلت کے بعد یہ کام مکمل ہوتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ملک بھر کی پولیس نے بلا کسی چُوں چراں کے اچھے بچوں کی طرح سے اعظم سواتی کے خلاف مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع کردیا حالانکہ جن پولیس والوں نے یہ سب کچھ کیا وہ اعظم سواتی کو جانتے تک نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کبھی زندگی میں ان سے ملے ہوں گے۔
یہ ہی حال ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے والے مدعیوں کا ہے، سب کو معلوم ہے کہ حکم کہاں سے آیا ہے لیکن کس طرح سے پولیس فورس حکم دینے والوں کی سہولت کاری کررہی ہے۔ اس کا اندازہ مقدمات کے اندراج سے لگایا جا سکتا ہے، اس سے پہلے صحافیوں کے خلاف بھی اسی طرح کا حربہ استعمال کیا گیا،
سابق وزیر اعظم عمران خان خود پر حملہ کرنے والوں کے خلاف اپنی ایف آئی آر درج نہ کروا سکے حالانکہ پنجاب میں خود ان کی اپنی حکومت ہے۔ اس سے تو کوئی اندھا بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ پاکستان میں اصل میں کس کی حکمرانی ہے۔۔۔؟
اگر پاکستان میں رولز آف لاءیعنی قانون کی حکمرانی ہوتی ہے تو عدالتیں اس طرح سے نہ کرتی جو وہ کررہی ہیں یعنی انہیں اپنے آرڈر جاری کرنے کے لئے ادھر ادھر دیکھنا پڑتا ہے، کیا یہ سب کچھ ریاست میں ریاست ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ ملک سے اسی لعنت کے خاتمے کے لئے قانون کی حکمرانی بہت ہی ضروری ہو چکی ہے اور قانون کی حکمرانی کے لئے اس سیاسی پارٹی کا ساتھ دینا چاہئے جو اس عزم کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ ملک کو ایک منصوبے کے تحت تباہی و بربادی کی جانب دھکیلا جا رہا ہی جب باڑ خود فصل کو کھانا شروع ہو جائے تو پھر فصل کو بربادی سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ افسوس کہ ملک کے میڈیا کا ایک بڑا حصہ اپنی حرام خوری کی وجہ سے جنگل کا قانون رائج کرنے والوں کا ہم نوا بن چکا ہے اور وہ قوم کو اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے بہت ہی بُری طرح سے گمراہ کررہا ہے، وہ ملکی عوام کو ملک کی صحیح صورتحال کے بجائے سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہا ہے یعنی ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنا کر دکھا رہا ہے۔ ملک میں اب بھی کچھ نہیں بدلا، صورتیں بدلنے سے نظام نہیں بدلتا بلکہ نئی بوتل میں پُرانی شراب ڈال دی گئی ہے جو اب نواز شریف کے پاکستان واپس آنے سے خودبخود ثابت ہو جائے گی۔
عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے لئے آنے والے دنوں میں مشکلات پیدا کردی جائیں گی، ملکی عوام کو اس صورتحال سے ملک کو نکالنے کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوف کے بت کے خاتمے کے لئے اپنی تحریک کو تیز تر کرنا ہو گا اسی میں پاکستان کی سلامتی اور اس کی فلاح مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں