621

خون کے خلیے سے بھی چھوٹی… دنیا کی مختصر ترین الٹراسا ئونڈ مشین

میونخ: جرمن سائنسدانوں نے دنیا کی سب سے مختصر الٹراسا ئونڈ مشین ایجاد کرلی ہے جس کی جسامت خون کے خلیے سے بھی کم ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں الٹراسا ئونڈ کی مروجہ ٹیکنالوجی سے بالکل مختلف طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔
یہ ایجاد میونخ میں واقع ”ہیملم ہولٹز زینٹرم“ کے ماہرین نے کی ہے جو جرمن تحقیقی مراکز کے وسیع نیٹ ورک میں شامل ایک تحقیقی مرکز ہے۔
اس آلے میں الٹراسا ئونڈ لہروں کو محسوس کرنے والا حصہ 220 نینومیٹر چوڑا اور 500 نینومیٹر لمبا، یعنی عام انسانی بال کے مقابلے میں بھی تقریباً 350 گنا باریک ہے۔ یہ لگ بھگ اسی طرح بنایا گیا ہے جیسے سلیکان مائیکروپروسیسرز یا مائیکروچپس بنائے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ الٹراسا ئونڈ مشین میں آواز کی ایسی لہروں کی مدد سے تصویر کشی کی جاتی ہے جنہیں انسانی کان سن نہیں سکتے۔ الٹراسا ئونڈ مشین یہ لہریں خارج کرتی ہے جو انسانی جسم کے اندرونی حصوں سے ٹکرا کر واپس پلٹتی ہیں جنہیں یہ مشین اپنے ”ٹرانس ڈیوسر“ نامی پرزے کے ذریعے وصول کرتی ہے۔
اسپتالوں اور میٹرنٹی ہومز وغیرہ میں عام استعمال ہونے والی کسی بھی الٹراسا ئونڈ مشین کا انحصار ”داب برق اثر“ (پیزو الیکٹرک ایفیکٹ) کہلانے والے قدرتی مظہر پر ہوتا ہے جس میں کسی چیز پر دبائو کی کمی بیشی کے نتیجے میں بجلی پیدا ہوتی ہے۔
تکنیکی طور پر اس طریقے میں یہ خرابی ہے کہ الٹراسا ئونڈ مشین کو ایک خاص حد سے چھوٹا نہیں کیا جاسکتا، جبکہ اس کی حساسیت بھی بہت زیادہ نہیں کی جاسکتی۔
جرمن سائنسدانوں کی بنائی ہوئی اس مختصر ترین بلکہ ”خردبینی“ الٹراسا ئونڈ مشین میں ”فوٹو اکوسٹکس“ (photoacoustics) یعنی روشنی اور آواز سے متعلق سائنسی قوانین کو استعمال کرتے ہوئے یہ مسئلہ حل کیا گیا ہے۔
تحقیقی مجلے ”نیچر“ کے تازہ شمارے میں اس حوالے سے شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، یہ ننھی منی مشین منفی 6 ڈیسی بیل پر 230 میگاہرٹز تک کی الٹراسا ئونڈ لہروں کو بہ آسانی محسوس کرسکتی ہے۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ موجودہ الٹراسا ئونڈ مشینوں کے مقابلے میں اس نئی ایجاد کی حساسیت ایک ہزار گنا زیادہ، جبکہ کارکردگی دس کروڑ گنا زیادہ ہے۔
جس طرح مائیکروپروسیسر میں لاکھوں ٹرانسسٹرز ایک ہی چپ پر ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح مستقبل کے الٹراسائونڈ آلات بھی مختصر ہونے کے علاوہ بیک وقت ایسے لاکھوں خردبینی الٹراسا ئونڈ ڈٹیکٹرز پر مشتمل ہوں گے۔
ماہرین کو امید ہے کہ ایک بار میدانِ عمل میں آجانے کے بعد، یہ مشین انسانی جسم کے اندرونی حصوں کی ایسی تصویر کشی کررہی ہوگی جیسے ہم خردبین کے ذریعے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بڑا کرکے دیکھنے کے قابل ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں