عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 647

درد کی دوا کیا ہے؟

بچپن میں الف لیلیٰ کی کہانیوں میں ہر کسی نے یہ ضرور پڑھا ہوگا کہ سامری جادوگر کی جان یا تو کبوتر میں ہوا کرتی تھی یا پھر کسی دوسرے پرندے میں۔۔۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال پاکستانی جمہوریت کی ہو گئی ہے یعنی اب پاکستانی جمہوریت کی جان بھی کرپشن کی بقاءاور اس کی فراوانی میں آگئی ہے جب بھی کرپشن پر کسی طرف سے ضرب پڑتی ہے تو پاکستانی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح کی صورتحال سے پاکستانی جمہوریت ان دنوں دوچار ہے، ہر طرف یہ شور و غوغا سنائی دے رہا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ کوئی اس طرح کا شور و غوغا مچانے والوں سے یہ پوچھے کہ بھائی ذرا یہ تو بتلاﺅ کہ جمہوریت کس طرح سے خطرے میں ہے؟ تو ان کا فٹ سے یہ جواب آئے گا کہ عین ضمنی انتخابات سے قبل اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کا کیا مطلب ہے؟ ایسا کہتے ہوئے وہ ان تمام مقدمات و الزامات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جس جمہوریت کے خطرے کی وہ لاگ الاپ رہے ہیں خود اس کی بنیاد بھی ”رولز آف لائ“ پر کھڑی ہے۔ پھر کس طرح سے خود قانون کے نفاذ سے جمہوریت کو خطرہ ہو سکتا ہے؟ میرے خیال میں اب جمہوریت کو خطرہ ہے کا ”سودا“ بازار میں مزید نہیں بکے گا۔ اب پاکستانی قوم جان چکی ہے کہ ان قومی لٹیروں اور چور نما سیاستدانوں کو جب بھی کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے تو یہ فوراً اپنی دفاع میں جمہوریت کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ”جمہوریت کو خطرہ“ ہونے کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کے بعد اسی ڈرامے کو رچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسمبلی ہال کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کی تیاری کی جارہی ہے، ضمنی الیکشن یا جرنل الیکشن کا اس طرح کی گرفتاریوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، دنیا بھر میں اس طرح کا عمل بیک وقت جاری رہتا ہے مگر کہیں بھی جمہوریت کو جرائم کی روک تھام کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا، یہ بدقسمتی وطن عزیز کے حصے میں آئی ہے۔ جہاں سیاستدانوں کی اکثریت جرائم میں ڈوبی ہوئی ہے اور وہ سیاست کو جرائم میں اپنی دفاع کے لئے بطور ہتھیار کے استعمال کرتے ہیں اور اس کاروبار میں پاکستانی میڈیا بھی کسی حد تک اس طرح کے سیاستدانوں کے بازو کا کردار ادا کررہا ہے اس وقت جب ملک میں کسی بھی طرح سے کرپشن کے خاتمے کا ایک ماحول بن گیا ہے، حکومت اور اس کے ادارے پوری طرح سے کرپشن کے خلاف متحرک ہو گئے ہیں تو سیاستدانوں میں ایک کھلبلی مچ گئی ہے۔
اس وقت ملک کے سارے سیاستدان اپنے پارٹی منشور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نکاتی ایجنڈے پر ایک ہو گئے ہیں اور سب کا مقصد اپنی جانب بڑھنے والی اس احتسابی موت کو روکنا ہے جو ان کے سالہاں سال کی لوٹ مار سے کمائی جانے والی دولت کو بہا کر لے جانے کے لئے ان کی جانب بڑھ رہی ہے اسی لئے وہ سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ کوئی بھی ایسی صورتحال پیدا کردی جائے کہ جس سے عمران خان کی اس حکومت کا خاتمہ ہو جائے اور کوئی دوسری حکومت آجائے تا آنکہ وہ احتساب کے اس سلسلے کو فوری طور پر روک سکے، یہ ہی وجہ ہے کہ آگ اور پانی سب اس وقت ایک ہو گئے ہیں، سب ایک دوسرے کا سہارہ بن کر عمران خان سے لڑ رہے ہیں، ضمنی انتخابات میں ساری پارٹیاں مل کر پی ٹی آئی کے امیدوار کا مقابلہ لوٹی ہوئی قومی دولت سے بھرے بوریوں کے منہ کھول کر اور منہ مانگے داموں ووٹوں کی خریداری کی صورت میں کررہے ہیں، غرض ”تخت یا تختہ“ کے فارمولے کو مدنظر رکھ کر ہی 12 اکتوبر کے اس ضمنی انتخابات میں سیاسی پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں، کالم کی اشاعت تک صورتحال کافی حد تک واضح ہو جائے گی کہ کس کا مستقبل کیا ہوگا؟ فی الحال تو اقتدار کی باریاں لینے والوں کی اب جیل میں ڈالے جانے کی باری لگی ہوئی ہے۔ نواز شریف کے بعد شہباز شریف پھر آصف زرداری اور اس کے بعد خورشید شاہ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے گرفتاری کے بعد دوسرے سیاستدانوں کے چہروں کے رنگ بھی اڑ چکے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی گرفتاری صاف دکھائی دے رہی ہے اور وہ اپنی گرفتاریاں روکنے کے لئے اپوزیشن لیڈر کے گرفتاری پر پوری قوت لگا کر شور مچا رہے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے پندرہ سالوں سے یہ روایت پڑ گئی ہے کہ اگر کرپشن میں میڈیا والا دھر لیا جائے تو آزادی صحافت پر حملہ تصور کیا جاتا ہے اور اگر عدلیہ یا سیکورٹی فورسز کا کوئی جرنل جج وغیرہ کرپشن کی زد میں آجائے تو ان اداروں کے خطرے میں پڑ جانے کا واویلا مچا دیا جاتا ہے۔ یہی حال سیاستدانوں کا ہے گرچہ ان چالاک لوگوں نے اپنی کرپشن کو بچانے کے لئے نیب کے چیئرمین کے تقرری تک کا اختیار اپنے پاس رکھا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاتھوں لگنے والا چیئرمین میر صادق بننے کے بجائے ٹیپو سلطان بن گیا۔
وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپوزیشن کے ان گیدڑ بھبکیوں میں بالکل بھی نہ آئیں بلکہ ان تمام اقدامات کے کرنے سے گریز نہ کریں جس سے ملک میں بہتری آنے کے امکانات ہو اور لوگوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے۔ پڑھنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ملک میں آنے والی موجودہ مہنگائی کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں بلکہ نواز شریف کی حکومت ہے جس نے غیر ملکی قرضوں کو عیاشی کا ذریعہ بنایا، دنیا بھر میں قرضے گرتی ہوئی معیشت کو سہارہ دینے کے لئے یا موت کے منہ میں جانے والے انسانوں کو بچانے کے لئے لیے جاتے ہیں، قرضوں کے ذریعے میٹرو ٹرینیں یا ہائی ویز یا برج نہیں بنائے جاتے، سابقہ حکومتوں کے ان کارناموں کا علم عوام سے زیادہ میڈیا کو تھا۔ لیکن میڈیا نے خود پر اشتہاروں کی بارش برسانے کی وجہ سے سابقہ حکومتوں کے ان ہولناک خامیوں کو ان کی کامیاب پالیسی ظاہر کرکے پوری قوم کو ماموں بنا ڈالا۔ اب جب کہ موجودہ حکومت سبسٹڈی کے ذریعے مصنوعی طریقے سے روکی جانے والی مہنگائی کو اس کی اصل حالت میں لا کر اس کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لئے منصونہ بندی کررہی ہے تو اپوزیشن ایک بار پھر اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعے عوام کو مہنگائی کا واویلا مچا کر سادہ لوح عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف اکسا رہی ہے۔ اس لئے عوام کو چاہئے کہ وہ نہ تو میڈیا کے ڈس انفارمیشن پر کان دھرے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کے بیان بازیوں پر کوئی توجہ دیں بلکہ وہ اصل صورتحال پر غور کریں کہ کس طرح سے سابقہ حکومتوں نے اپنی حرام خوری کے لئے پوری قوم کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ کوئی بھی اس طرح کی پالیسی اختیار کریں جس سے ملک کے متوسط طبقے کو مہنگائی کے اس موجودہ لہر سے مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا ہو تا آنکہ وہ ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کے لئے انتخابی ایندھن بننے کی غلطی نہ کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں