مجھے اب سے تقریباً 20 یا 25 سال پہلے نیویارک کے علاقہ مین ہٹن میں ایک بہت ہی بڑا پوسٹر بورڈ پر نظر آیا جو کہ وہاں پر دوسرے پوسٹروں کے موازنے میں بہت نمایاں اور مختلف تھا۔ میں نے اس پر غور کیا تو اس میں مہاتما گاندھی کی آدھے جسم کو کھدر سے لپیٹے ہوئے بلیک اینڈ وائٹ تصویر بنی ہوئی تھی اس کے نیچے انگریزی میں لکھا تھا ”اعلیٰ فکر“۔
سقراط کو تمام زبانوں میں اور مذاہب کے ماننے والوں میں سچ کی خاطر زہر کا پیالہ پینے والے مفکر کی قربانی کا ذکر کیا جاتا ہے اور گاندھی کو ان کے عدم تشدد کی بناءپر یاد رکھا جاتا ہے۔
جب کہ ہم نے اپنے اکابرین کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ان کی خدمات کو اُجاگر کرنے کے بجائے ان میں خامیاں تلاش کرنا شروع کردیں اور اپنے اکابرین کی خدمات نمایاں کرکے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بجائے آپس ہی میں چپقلش شروع کردی۔ بچپن میں اکثر اپنے والد سے جب کہتا کہ ہمارے بہت سے جاننے والے ہمیں اہل تشیع سمجھتے ہیں تو وہ میری بات سن کر مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔ شاید ہماری کمسنی یا نادانی سمجھ کے یا ان جاننے والوں کی ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے۔ اب جب کہ عمر اور تعلیم کے ساتھ تھوڑا شعور آنا شروع ہوا تو اپنے والد کی خاموش مسکراہٹ کا مطلب آہستہ آہستہ سمجھ میں آنا شروع ہوا۔ ہمارے یہاں کچھ طبقہ باہر سے آنے والے نظریات کو بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں جب کہ اپنے اپنے اکابرین کو مختلف طبقوں میں بانٹ کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور اپنی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ لیتے ہیں۔ دوسروں کے اکابرین میں خامیاں تلاش کرکے ایک دوسرے کی ضد میں دوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اس طرح باقی دنیا ہمیں نظر انداز کر دیتی ہے۔ وہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ ان کے اکابرین کی شاید تعلیمات یا نظریات یہ ہی ہیں جن کا یہ پرچار کررہے ہیں، یہ ہی وجہ ہے ہمارے دیوقامد اکابرین کے مقابلہ میں کہیں زیادہ چھوٹے افراد نیا کی آنکھوں کا تارا سمجھے جاتے ہیں۔ ہم اس دور میں بھی جب انسان چاند سے بھی آگے مریخ تک پہنچ رہا ہے، ہم نے بنو عباس اور بنو امیہ کی لڑایاں یا سعودی ایرانی لڑائیوں کا میدان کارزار اپنا گھر بنایا ہوا ہے۔
ہم نے اللہ رسول کے احکامات کو نظر انداز کرکے شیعہ اور سنی کی تقسیم کی دیوار کو بلند کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ نہ ہم سنی ہو کر اللہ نبی اور صحابہؓ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر دنیا کو ان کے فکر و تعلیمات پہنچائیں بلکہ اپنی تمام توانائی اپنے خود ساختہ مخالف کی تعلیمات کو غلط قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس ہی طرح جب اہل تشیع ہو کر اپنے اکابرین کی تعلیمات پر مکمل عمل کریں اپنے آپ کو یہاں کی روایات اور کلچر میں ڈھال دیا ہے، راہ شبیری کو چھوڑ دیا۔
سقراط نے قربانی دے کر دنیا کو سچائی کا درس دیا جب کہ ہمارے بہتر (72) اکابرین نے سچ کی خاطر قربانی دے کر تمام قربانیوں کو ایک ایک سقراط سے بڑا ثابت کیا۔ دنیا کے سامنے حضرت امام حسینؓ کی اس قربانی کا اسلام کے لئے سب سے بڑا قربانی ثابت کرنے کے لئے یہ ہی کافی ہے، اسلام میں اور باقی دنیا میں تمام قربانیاں انفرادی سطح پر ہوئیں جب کہ امام حسینؓ کی قربانی پورے خاندان اہل بیت کی قربانی تھی۔
شبیر کی افتاد بہت مشکل ہے
یہ ضبط خداداد بہت مشکل ہے
قربانی خود اپنی دے سکے گا انسان
قربانی اولاد بہت مشکل ہے
اہل بیت کی یہ قربانی صرف شیعہ، سنی، یا ایرانی، سعودی یا صرف اسلام کے لئے ہی نہیں، تمام انسانیت کے لئے ایک درس عظیم ہے۔ اس قربانی کے آگے تمام انفرادی قربانیاں ایک طرف اہل بیت کی قربانی دوسری طرف، ہم اپنے اکابرین کی تعلیمات کو فراموش کرکے ان کی قربانیوں کی ناقدری کررہے ہیں۔ اہل بیت نے بھی اپنی قربانی ان تعلیمات اور فکر کے لئے دیں جو ہمارے نبی صحابہ کرامؓ کی فکر و عمل کو اپنا رہنما بنا کر دیں۔
ہمارے نبی کی تعلیمات کو حضرت علیؓ کے فکر و عمل سے فروغ دیا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں ان تعلیمات کو رائج کرکے فروغ دیا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے اپنی جان ان تعلیمات اور شریعت کے نفاذ اور فروغ کے لئے دی جس کی روشنی قرآن سے اور حضور اکرم کی سیرت سے ان تک پہنچی۔ اہل بیت کی قربانی اس آفاقی سچ کی خاطر تھی جس کی تعلیم حضرت اسماعیل نے دی پھر حضرت عیسیٰؑ نے سولی پر چڑھ کر دی، وہی پیغام ہمارے نبی حضرت محمد نے قرآن اور اپنی سیرت کے ذریعہ دیا۔
آج کے دور میں ہم سقراط اور گاندھی کی خدمات کو تو بہت فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں، جب کہ اجتماعی قربانی کے اس عظیم مظاہرے کو فراموش کرکے اپنے آپ کو مختلف طبقوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہیں۔ جب کہ مارنے والا چاہے وہ کسی طبقے سے یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو، وہ یزید کا پیروکار ہے اور جان دینے والا چاہے وہ شیعہ ہو، سنی ہو، وہ حسینیتؑ کا شہد ہے۔ یعنی قربانی دینے والا ہمیشہ حسینیت کے خیموں سے ہوگا۔ اور مارنے والا کسی بھی فقہہ سے تعلق رکھتا ہو اسے یزیزی استعمار کی نمائندہ قوت کے نام سے جانا جائے گا۔ جب ہماری تعلیم اور ہمارے شعور کی بنیاد ان نظریات اور فکر پر ہو۔
روز شب ذکر شہید کربلا جاری رہے
سلسلے سب ختم ہوں یہ سلسلہ جاری رہے
مجلس شبیر کا یہ سلسلہ جاری رہے
ذکر حق ذکر نبی ذکر خدا جاری رہے
مدحت آل پیمبر تو نہ چھوئے گی کبھی
شاعری ہم ترک کردیں یا صبا جاری رہے
جس ہستی نے میرے سوال کو شعور پر چھوڑ دیا، 72 سے زائد مرثیہ کہے اور جدید مرثیہ کی بنیاد رکھی۔اور جواب ہمارے شعور پر چھوڑ دیا وہ کہتے ہیں
پہلے سمجھ ذرا خدا کیا ہے
پھر سمجھنا کہ کربلا کیا ہے
چل رہا ہوں رہِ حسینیؑ میں
کیا خبر مرضیءخدا کیا ہے
اے صبا اب وظیفہ لب شوق
ذکر شبیر کے سوا کیا ہے
وہ ذکر شبیر کو اتحاد بین المسلمین کے لئے وقف کئے ہوئے تھے، انہوں نے ہی پاکستان میں اس مقصد کے لئے مسلمانوں کے لئے اتحاد بین السملمین کا نعرہ اپنے ان مرثیوں کے ذریعہ بلند کیا، جب ان کے کلام کی دھوم پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعہ تمام امت مسلمہ میں گونج رہی تھی انہوں نے اپنے تمام کلام کو حضرت محمد اور آل محمد اور اصحابہ محمد کی خدمات کے لئے وقف کیا اس پر وہ ہمیشہ فخر کرتے رہے۔
ہم عاشقان آل محمد ہیں اے صبا
زندہ رہیں گے نام ہمارے فنا کے بعد
مجھے تو اپنے سوالات کے جواب اب سمجھ میں آگئے یہ ہی ان کے سامنے جو مجھ سے سوالت کرتے ہیں چھوڑ رہا ہوں۔
یہ کمال شعر و سخن نہیں یہ نمود قدرت فن نہیں
یہ نہیں ہے جوش سخنوری یہ صبا کے دل کا پیام ہے
