نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 274

دیر آئے دُرست آئے

”دیر آئے دُرست آئے“ کے مصداق حکومت نے اچھا ہوا کہ ان سیاستدانوں کے خلاف قانونی کارروائی کا سلسلہ شروع کردیا ہے جو سیاست کے دوران حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے ملک کے سلامتی کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا کر ملک دشمن قوتوں کے بیانیے کو تقویت دینے کا باعث بنتی ہیں اس طرح سے کرکے وہ ایک طرح سے ملک کی سلامتی سے کھلواڑ کرنے کا بھی ارتکاب کرتے ہیں جو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے کسی بھی مہذب معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن پاکستان میں سیاستدانوں نے اسے ہی اپنا طرہ امتیاز بنا لیا تھا۔ بالاخر اس پر عمران خان کی حکومت حرکت میں آگئی اور ابتدائی کارروائی کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے مفتی کفایت اللہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور جس کی منظوری وفاقی کابینہ نے دے دی ہے اور کالم کی اشاعت تک نہ صرف مقدمہ درج کردیا جائے گا بلکہ ممکن ہے مفتی کفایت اللہ گرفتار بھی کرلئے جائیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا اور جن سیاستدانوں نے بھی ملک کے سلامتی کے اداروں کے خلاف گمراہ کن تقریر کی ہو گی یا کسی بھی طرح کی کوئی بیان بازی کی گئی تو ان کے خلاف بھی مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی فورسز دونوں ایک ہی پیج پر ہیں، دونوں کی رضا مندی سے ہی ملک دشمنوں کا آلہ کار بننے والے سیاستدانوں کو ملکی قانون اور آئین کا پابند بنانے کی غرض سے اس آئینی اور قانونی پراسس سے گزارا جائے گا جس کی ابتداءمفتی کفایت اللہ سے کردی گئی ہے۔ اس وقت جو اپوزیشن کا اتحاد پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں سرگرم عمل ہے ان سے متعلق تو خود مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پی ڈی ایم والے ملکی عوام کے لئے نہیں بلکہ اپنی دولت بچانے کے لئے نیب کے خلاف نکلے ہیں۔ اس طرح سے جے یو آئی سے نکالے جانے والے ان مذہبی رہنماﺅں نے بھی عمران خان کے اس بیانیے کی تائید کردی ہے جو روز اول سے ہی عمران خان کہہ رہ ہیں کہ جب نیب ان کے خلاف کارروائی کرے گا تو یہ سب چور اکھٹے ہو جائیں گے اور ویسے بھی ان ہی سیاستدانوں نے ایک طرح سے ملک کے سب سے بڑے دستور اور سینیٹ کو نیب سے متصادم کروانے کی کوشش کی تھی لیکن اب مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی گرفتاری سے سلیم مانڈوی والا کو نیب اور اس کی پشت پر کام کرنے والی قوتوں کی جانب سے پیغام مل گیا ہے اور میرا نہیں خیال کہ اب بھی سلیم مانڈوی والا نیب کے چیئرمین کو سینیٹ میں بلوانے کی غلطی کریں گے کیونکہ نیب ایک آئینی ادارہ ہے اور نیب کے چیئرمین کی تقرری بھی اسی آئین کے ذریعے ہی ہوتی ہے جو آئین کہیں اور نہیں خود سینیٹ سے ہی منظور ہوا ہوتا ہے۔ اس لئے نیب جو کچھ بھی کررہی ہے وہ آئینی طور پر حاصل اختیارات کے تحت کررہی ہے اس لئے اگر کسی سینیٹر یا سیاستدان کو نیب کے اقدامات پر اعتراض ہے تو وہ اس کے لئے سب سے بہترین فورم عدالت جا کر شکایت کرسکتا ہے۔ عدالت ہی قانونی طور پر ان سے جواب طلب کرسکتی ہے۔ سینیٹ اور دوسرے قانون ساز اداروں کو اس طرح کے عدالتی معاملات میں ملوث کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ یہ ایک طرح سے نیب کو اپنے زیر تسلط لانے اور ان پر اپنے غیر قانونی احکامات ماننے کے لئے ذہنی طور پر تیار رکھنے کے مترادف ہو گا اور اس طرح سے کرکے سینیٹ کی قدر منزلت اور ان کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا بلکہ عوام میں ان کے خلاف ایک بہت ہی منفی پیغام جائے گا کہ سیاستدان اپنی کرپشن کو بچانے کے لئے اب سینیٹ کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور ویسے بھی وزیر اعظم عمران خان پہلے ہی سینیٹ میں نیب کے چیئرمین کو بلائے جانے کی خبروں پر خفگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ نیب ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے اور انہیں آزادی کے ساتھ ملکی خزانہ لوٹنے والے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کرنے دیں تاکہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم رہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک تو جمعیت علمائے اسلام ف میں ہونے والی بغاوت اچھی خبر ہے کہ ایک مذہبی جماعت کے اندر سے غیر جمہوری عمل پر بغاوت کی گئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کو خاندانی پارٹی بنا کر اپنے مفادات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے پر مولانا فضل الرحمن کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے اسی طرح سے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے اندر پائی جانے والی آمریت پر بھی بغاوت کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کرکے ملک دشمنوں کے آلہ کار بننے والے سیاستدانوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کریں، ملکی سلامتی کو ہر طرح کی سیاست پر بالائے طاق رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہی نئے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں