پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دیتا چلا جارہا ہے۔ یہ خبر ہم وقتاً فوقتاً سنتے رہتے ہیں اور لاپرواہی سے ٹال دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کا کافی قرضہ اتارنا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان اپنی صنعت و حرفت زراعت اور معیشت کا 40 فیصد قرضوں کی مد میں ادا کررہا ہے اس وقت پاکستان پر 50 بلین ڈالر سے زیادہ کا قرضہ ہے اس کے باوجود ابھی پاکستان چھے حالات میں ہے اور کریڈٹ اسکور بھی اچھا جارہا ہے، ورنہ بعض ممالک ان قرضہ جات کے بوجھ تلے دب کر دیوالیہ ہونے کے قریب آچکے ہیں۔ یہ قرضہ آئی ایم ایف کے علاوہ مختلف پرائیویٹ ادارے سود پر دیتے ہیں، طریقہ کار بالکل اس طرح ہے جیسے کریڈٹ کارڈ یا گھر کاروبار یا اشیاءپر آپ نے قرضہ لینا ہو، سود کا تعین آپ کے کریڈٹ اسکور سے ہوتا ہے۔ 3 فیصد سے 21 فیصد تک سود لیا جاتا ہے۔ ملکوں کے قرضے بالکل اسی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کا کریڈٹ ابھی اچھا ہے ورنہ دنیا کے چھ سات ممالک ایسے ہیں جو وقت پر قسطیں ادا نہ کر پائے ان کا سود بھی بڑھ گیا اور اب وہ تقریباً دیوالیہ یعنی بینکرپٹ ہونے کے قریب ہیں۔ ان میں زمبابوے، موزمبیق، ہیٹی، جنوبی سوڈان، یمن اور وینزویلا سرفہرست ہیں۔ جب کوئی ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے تو بیل آﺅٹ کے لئے آئی ایم ایف یا کسی بھی ادارے سے رابطہ کرتا ہے اور وہ اپنی تمام شرائط پر بیل آﺅٹ کرتے ہیں لیکن بدلے میں بھاری سود اور ملک کی معیشت، بجٹ اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ مثلاً پبلک پر ٹیکس بڑھانا، ملکی اخراجات کم کروانا، بجٹ اپنی نگرانی میں بنوانا اور ملک کی معیشت کو راہ پر لانے کے لئے اس ملک کی پالیسیوں میں ترجیح و اضافہ ان کا حق بن جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت خراب ہونے کا سب سے بڑا سبب سیاسی لیڈروں کے ذاتی مفادات کے باعث آپس میں رسہ کشی ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دینا اور ایک دوسرے کی حکومت کمزور کرنے کے لئے ایسے اقدامات کرنا جس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت پر پڑے، دوسرا بڑا سبب کرپشن کا بے انتہا بڑھ جانا، یہ دونوں ہی چیزیں ہمارے ملک میں موجود ہیں جس اثر ملک کی معیشت پر پڑا ہے اور ایک سبب پاکستان بننے کے بعد انڈیا سے 4 جنگیں، 400 ملین افغانی مہاجرین، کشمیر کا مسئلہ، دہشت گردی، صوبوں کے اپنے مسائل، غیر ملکی سرمایہ دار سرمایہ نہیں لگاتے، امپورٹ ایکسپورٹ میں بداعتمادی کے باعث تجارت پر منفی اثر پڑا ہے اس کے باوجود ابھی پاکستان خطرہ کی گھنٹی سے دور ہے اور آئی ایم ایف کا قرضہ اتارنے کا متحمل ہو سکتا ہے اگر عوام اور حکومت سنجیدگی سے مل کر کام کریں اور راہ راست پر ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کو صحیح قیادت ایوب خان کے بعد نہ مل سکی، بھٹو کے دور سے صوبوں کا بٹوارہ ہوا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ ہر صوبے کی ایک اپنی علیحدہ پارٹی تھی جس نے پاکستان قوم کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور ہر صوبے کی قیادت بدعنوان تھی اگر یہ صوبائی سطح پر بھی صرف اپنے اپنے صوبے کے لئے کچھ کرتے تو شاید بہتر ہوتا، عوام کو سڑکوں شاہراہوں، پلوں، بسوں، ٹرینوں کی نہیں، صنعت کی روزگار کی ضرورت تھی جو نہ مل سکی، پاکستان کی معیشت کو 1968ءکے بعد مسلسل نقصان ہی پہنچتا رہا۔ معیشت میں ترقی نہیں بلکہ زوال آیا ہے، ہر حکومت ہماری قوم کو اس خوش فہمی میں ڈال دیتی ہے کہ معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ 50 بلین سے زیادہ کا قرضہ اور اس قرضے کو کم کرنے کے لئے دھڑا دھڑ نوٹ چھاپے جارہے ہیں، روپے میں کمی ہورہی ہے جو اور بھی خطرناک ہے، فی الحال یہ خوش آئند بات ہے کہ قرضے کی قسطیں باقاعدگی سے ادا ہو رہی ہیں گو کہ کافی مشکلات ہیں اور ان مشکلات سے نکلنے کے لئے پاکستان چائنا اور سعودی عرب کی طرف دیکھ رہا ہے اور ہماری قوم چائنا اور سعودی عرب کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد سمجھتی ہے جب کہ صورت حال خالص کاروباری ہے یہ سب محبت ہمدردی یا دوستی میں نہیں ہو رہا وہ ایسی قومیں ہیں جن کے نزدیک وطن سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ان میں چائنا کے علاوہ کوریا، جاپان، فلپائن وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ 43 بلین کا چائنا خالص کاروباری معاہدہ کررہا ہے اور اس معاہدے سے چائنا کو کیا فائدہ پہنچے گا آپ سوچ بھی نہیں سکتے یہ تمام سرمایہ جو چائنا لگا رہا ہے، صرف 5 سال میں پورا کرلے گا اور اس کے بعد 20 سال تک ہماری مٹی سے کمائے گا۔ وہ بجلی بھی ہمارے عوام کو ڈبل قیمت میں مہیا کرے گا۔ چائنا اور سعودیہ کی پاکستان کو اپنا محتاج بنانے کی پوری کوشش ہے اور یہی ہمارا مستقبل ہے اگر ابھی بھی ہوش سے کام نہ لیا گیا۔ پاکستان میں اب تک جتنی حکومتیں آئیں ان میں فوجی حکومتیں پھر بھی بہتر رہیں۔ جمہوری حکومتوں نے تو نقصان ہی پہنچایا، جمہوری لیڈروں اور حکمرانوں میں تعلیم اور سمجھ بوجھ کا فقدان تھا۔ ان کی ذہنیت ہمیشہ جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی رہی عوام کو اپنا محکوم بنا کر رکھنا انہیں غلام سمجھنا اور خود کو ملک کا بادشاہ سمجھنا دیکھ لیں، شہنشاہیت کا دور جب بادشاہ مر جاتا تھا تو اس کا جانشین چاہے، 12 سال کا ہو یا 18 کا تمام عمر رسیدہ، وزراءامور سلطنت میں ماہر اس بچے کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوئے تھے آج ہمارے ملک میں بلاول، مریم نواز، حمزہ شہباز اس کی مثال ہیں جن کے پیچھے عمر رسیدہ، پرانے تجربہ کار سیاست دان ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایوب خان کا دور پاکستان کا تاریخی دور کہلاتا ہے۔ پاکستان نے دس سال میں جس طرح ترقی کی تھی اگر اسی راہ پر گامزن رہتا تو آج ہم چائنا اور کوریا کے مدمقابل ہوتے لیکن بے ایمان لالچی ایمان فروش قیادت اور لاپرواہ غلام قوم نے اس کے بعد ترقی کا ابھرنا ہوا، سورج نہیں دیکھا، شاید اب عمران خان کی قیادت میں ہم دوبارہ وہی کھویا ہوا راستہ پالیں شاید قدرت نے یہ آخری موقعہ دیا ہے۔
717