خوشی کے ساتھ ہزار غم بھی ہوئے ہیں۔ جہاں بجتی ہیں شہنائیاں وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں، کچھ اس طرح کی صورتحال سے پچھلے ہفتے ہماری پارلیمنٹ دوچار تھی، وہاں بیک وقت آئین کا پچاس سالہ جشن بھی منایا جارہا تھا اور آئین کی موت کا ماتم بھی ڈیسک بجا کر سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی موجودگی میں کیا گیا، اس سارے منظر نامے میں ایک جج کا متنازعہ لنگڑی لولی اسمبلی میں شرکت کرنا نہ صرف بہت ہی معنی خیز ہے بلکہ اس سے خود عدلیہ کی شفافیت پر لاتعداد سوالات کھڑے ہو گئے ہیں اور اس پروگرام میں شرکت کے بعد مذکورہ جج کا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننا تو کجا اب جج کی حیثیت سے مزید کام کرنا بھی مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہو گیا ہے۔ فاضل جج اسمبلی میں جانے اور اپنی موجودگی میں عدلیہ کی بے حرمتی کئے جانے پر چاہے کچھ بھی توجیح کیوں نہ پیش کرے، اب وہ متنازعہ بن چکے ہیں، وہ اب مسلم لیگ نون یا پی پی پی کے سینیٹر یا مشیر تو بن سکتے ہیں مگر ان کا ایک جج کی حیثیت سے کام کرنا اب ممکن نہیں رہا، ان کا معاملہ ریفرنس کی شکل میں جوڈیشنل کمیشن کے پاس بھجوا دیا گیا ہے ہے، اب سو کالڈ لبرل یا پھر سو کالڈ صحافی ناچ ناچ کر اپنے سارے گھنگروں ہی کیوں نہ توڑ ڈالے، اب مذکورہ جج کی بحیثیت جج واپسی ممکن نہیں اور اگر وہ کسی طرح سے واپس بھی آجاتے ہیں اور وقت مقدرہ چیف جسٹس بھی بن جاتے ہیں تو پھر یہ سسلین مافیا اور گاڈ فادر کی جیت اور پاکستان اور اس کے آئین کی ہار ہو گی اور اس کے بعد پاکستانی آئین گاڈ فادر کے گھر کی لونڈی بن جائے گی۔
پاکستان ایک ڈیکلیئر ”ری پبلک بنانا“ بن جائے گا۔ مجھے تو اس وقت کے تصور سے بھی خوف آنے لگتا ہے، خد اپاکستان کی اس حالت پہ رحم کرے جسے خود اس کے اپنوں نے اس نہج پر پہنچا دیا ہے، جو لوگ اس وقت پاکستان پر حکمرانی کررہے ہیں، وہ اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے والے بعض ادارے اس وقت اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کے نزدیک آئین پاکستان اور اس میں بسنے والے 25 کروڑ عوام کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس موجودہ آئین کی پاسداری میں انہیں اپنی موت نظر آرہی ہے، اس لئے وہ اپنی جان کو بچانے کے لئے آئین کی قربانی دے رہے ہیں، ان کے نزدیک آئین تو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے اور آئین تو بنتے رہتے ہیں اگر ہم زندہ رہے تو دوبارہ اس سے بھی اچھا اور موثر ترین آئین بنا لیں گے، یہ ہے ان کی سوچ کہ کس طرح سے اپنی ذات کو ملک اور قوم پر ترجیح دے رہے ہیں، پاکستانی قوم اچھی طرح سے یہ جان چکی ہے کہ موجودہ حکومت کسی بھی طور پر الیکشن نہیں کروائے گی۔ چاہے سپریم کورٹ کتنے بھی فیصلے کیوں نہ جاری کرے، وہ توہین عدالت کی مرتکب ہو کر اپنے وزیر اعظم کو تو نا اہل کرکے قربان کر لیں گے مگر وہ الیکشن نہیں کروائیں گے، کیونکہ الیکشن اور اس کے نتائج ان کی اصلیت کا پول کھول کر رکھ دیں گے کہ حکومت پر قابض اس ٹولے کی ملکی عوام میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ ملکی عوام نے انہیں قدموں کی ٹھوکر بنا لیا ہے، وہ بلاحفاظتی حصار کے اپنے گھروں کو تو کجا اب واش روم تک جانے کے قابل نہیں رہے، ان کی حالت گملے کے پودوں والی ہو گئی ہے، اب ان کی جڑیں ملکی عوام میں باقی نہیں رہی، ملکی عوام کو بھی اچھی طرح سے معلوم ہو گیا ہے کہ باریاں لگانے والی یہ پارٹیاں ہی ملک کی تباہی، اس کی بربادی کی ذمہ دار ہیں۔ جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا اور ملکی عوام کو قرضوں کے دلدل میں دھکیل دیا، خود اپنے اور اپنے بچوں کے لئے لندن، امریکہ، فرانس اور دبئی میں جائیدادیں بنوائی اور اب بھی وائس رائے بن کر اس ملک کی رہی سہی کسر اس کے اداروں کو فروخت کرکے نکالنا چاہتے ہیں اور وہ اب بھی اپنی نکمی اور ہڈ حرام اولادوں کو ملک کے وزیر اعظم بنوانے کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ملکی عوام اب بیدار ہو چکی ہے ان میں شعور آچکا ہے، ان میں موجود خوف کے بت کو عمران خان کی کاوشوں نے پاش پاش کردیا ہے اور اب کوئی بھی حق اور سچ بات کہنے سے نہیں گھبرا رہا ہے۔ نہیں ڈر رہا ہے اور وہ دوسروں کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگے ہیں، وہ نہ تو گرفتاریوں سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی قیامت خیز مہنگائی اور غربت سے۔۔۔ اور یہ سب انقلاب کی نشانیاں ہیں، اس تصور سے حکمران پارٹی بہت ہی زیادہ خوفزدہ ہے۔ وہ آئین میں توڑ پھوڑ کرکے عدلیہ کے اختیارات تو محدود کررہی ہے مگر اس سے بھی وہ اپنے جانب بڑھنے والی موت سے خود کو نہیں بچا پائیں گے، پاکستانی عوام کا اس موقع پر اپنی عدلیہ کا ساتھ دینے میں ہی خود پاکستان کی اور آئین کی سلامتی اور اس کی پاسداری مضمر ہے۔
130