عمران خان کی موجودہ حکومت نے پورے ملک کے انتظامی شعبہ کو چلانے والے سرکاری ملازمین کے حوالے سے اصلاحات کا اعلان کردیا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس کے پیچھے ڈاکٹر عشرت حسین کا ہاتھ ہے جنہوں نے بیوروکریسی کی ذہنیت اور کارکردگی کے حوالے سے اب تک دو کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ بیوروکریسی جس کا تعلق انتظامیہ سے ہوتا ہے اس پر ہمیشہ عام لوگ شکوک کا اظہار کرتے ہیں۔ اس نوکر شاہی یا افسر شاہی کی خاص کی شناخت ہوتی ہے جس کے بارے میں عوام میں تاثر پایا جاتا ہے کہ ہر شعبہ جو عوام کی خدمت کے لئے بنایا گیا ہے یہ لوگ اپنے آپ کو عوام سے بالاتر سمجھتے ہیں ان کی اس ذہنیت کے حوالے سے ہمیں ایک قصہ یاد آرہا ہے جو کہ اس طرح کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ایک روز مرزا غالب کے شاگرد میر مہدی مجروح ان کے گھر آئے تو دیکھا کہ مرزا غالب پلنگ پر پڑے درد سے کراہ رہے ہیں۔ مجروح ان کے پیر دانبنے لگے۔ مرزا صاحب نے کہا ”بھائی تو سید زادہ ہے، مجھے کیوں گہنگار کرتا ہے کہ میرے پیر دباتا ہے“۔ میر مہدی مجروح نہ مانے اور کہا کہ آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دانبنے کی اجرت دیجئے گا۔ مرزا نے کہا ”ہاں اس میں مضائقہ نہیں“۔ مجروح پیر داب چکے تو ازراہ مزاح مرزا سے اجرت مانگی کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ مرزا خود ادھار پر گزارہ کررہے ہیں، مرزا نے جواب میں کہا بھیا کیسی اجرت، تم نے میرے پاﺅں دابے، ہم نے تمہارے پیسے دابے، حساب برابر۔
پچھلے دنوں امریکہ نے پاکستان کو اس کے حصے کے دس F16 طیارے دیئے جس پر ہندوستان نے امریکہ کے سفیر کو اپنے دفتر خارجہ طلب کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ امریکا نے پاکستان سے طیاروں کے تقریباً 80 ارب روپے بھی وصول کئے جو امریکا کو کولیشن سپورٹ فنڈ میں پاکستان کو ادا کرنے تھے۔ جو اس نے ایک مدت سے روکے ہوئے تھے۔ امریکا کا رویہ پاکستان کے ساتھ ایسا ہی تھا جیسا کہ مرزا غالب کا میر مہدی مجروح کے ساتھ یا ہندوستان کا پاکستان کے ساتھ پنجاب کے گیرداروں کا پاکستان کے عوام کے ساتھ۔ پنجاب کے غریب عوام سے وہاں کے جاگیرداروں کے سلوک صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ذہنیت پورے پاکستان میں اپنا تسلط قائم کر چکی ہے یہ مائنڈ سیٹ پورے ملک میں ہر شعبہ زندگی میں جڑیں پکڑ چکا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی کارگزاریاں واضح انداز میں دکھائی دے رہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان دن بہ دن کمزور ہوتا چلا جارہا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ جاگیردارانہ انداز فکر تھا تا کلچر میں نظر آیا، ساتھ ساتھ پٹواری نظام میں بھی یہ انداز نفوذ کر گیا۔ کیونکہ پٹواری نظام براہ راست جاگیرداری نظام کا حصہ تھا۔ یہ جاگیردار ابتدائی طور پر انگریزوں نے اپنی کمپنی کی حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے۔
1857ءکے بعد سامنے لائے۔ انگریز نے 1857ءکی جنگ آزادی میں اپنے وفاداروں کو مراعات کے طور پر جاگیریں عطا کردیں۔ یہ وفاداریوں تو پورے ہندوستان میں تھے جو نوابین اور مہاراجاﺅں کی شکل میں تھے اور پاکستان کے علاقوں میں جاگیرداروں، وڈیروں یا سرداروں کی صورت تھے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد پورے ہندوستان میں ان نوابین اور مہاراجاﺅں کی جاگیروں کو حکومت نے اپنے اختیار میں لے کر ان کی قوت کو توڑ دیا مگر پاکستان کے قیام کے بعد یہ جاگیردار، وڈیرے اور سردار دن بہ دن طاقتور ہوتے چلے گئے۔ شروع میں انہوں نے اپنے آپ کو دیہات تک محدود رکھا جو کہ پاکستان کا تقریباً 80 فیصد حصہ تھا۔ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں متوازی حکومت قائم کی ہوئی تھی۔ جس میں وہ اپنی مرضی کے مطابق نظم نسق چلانے کے فیصلے کرتے ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے اپنی نجی جیلیں قائم کی ہوئی تھیں۔ ان جیلوں میں ان کے ہاری، کسان، جاگیردار کی مرضی کے مطابق رکھے جاتے۔ ان پر ملکی قوانین کی پہنچ بند تھی، ملکی قوانین صرف شہروں تک محدود تھی۔ جب ملک میں اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا تو ایک نیا طبقہ ظہور میں آیا۔ یہ طبقہ تھا نوکر شاہی جس کو سول سرونٹ کہا جاتا تھا۔ ان جاگیرداروں نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ ادارے اور ان سے وابسطہ افراد طاقتور ہوتے جارہے ہیں تو انہوں نے ان اداروں میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانا شروع کردیا۔ اس طرح اپنے کسی بھائی بند یا اولاد کو ان اداروں میں پہنچانا شروع کردیا۔ یوں یہ ذہنیت نوکر شاہی بھی پروان چڑھنا شروع ہوگئی۔ جب ملک پر فوجی حکومت قائم ہوئی تو ان کا ساتھ نوکر شاہی نے بڑے زور و شور سے دیا اس طرح یہ اثرات فوجی حکمرانوں تک پھیل گئے۔ ایوب خان کا گورنر ملک امیر محمد خان اس کی ایک واضح علامت تھا جس سے اس دور کا فوجی حکمراں بھی گھبراتا تھا۔ یوں آہستہ آہستہ یہ جاگیردارانہ انداز فکر نوکر شاہی سے ہوتا ہوا، فوجی حکمرانوں چلا گیا۔ جو بعد میں یحییٰ خان کی صورت ملک میں مسلط ہوا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان ملک سے علیحدگی کا موجب بنا۔ اس ہی ذہنیت کا مظاہرہ ہوا جب مشرقی پاکستان میں ٹکا خان نے کہ مجھے انسان نہیں زمین چاہئے۔ اس طرح مشرقی پاکستان بے پناہ خونریزی کے باعث ہندوستان کی مداخلت کی وجہ سے پاکستان سے الگ ہو گیا۔ اس کے پیچھے وہی جاگیردارانہ ذہنیت تھی جس کا خمیازہ پاکستان کے عوام نے بھگتا۔ پھر یہ ذہنیت جنرل ضیاءالحق کی صورت سامنے آئی جیسے بقایہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ موجودہ پاکستان آج جس حال میں ہے وہ صرف اور صرف اس ذہنیت کی وجہ سے ہے۔ آج دنیا میں پاکستان کو کس نظر سے دیکھا جارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ آج پاکستان کے ساتھ دنیا کا رویہ بھی وہی ہے جو امریکا کا پاکستان کے ساتھ۔ یا غالب کا مجروح کے ساتھ یا جاگیردارانہ ذہنیت کا پاکستان کے عوام کے ساتھ۔ یہ جاگیردارانہ ذہنیت ایسی ہی ہے جیسے ہندوستان کے ہرہمن سماج کی نیچی ذات کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ یا امریکہ میں یہودی کا باقی دنیا کے ساتھ۔
یہ ایک حقیقت ہے امریکا میں جس قسم کا نظام ہے اس میں یہ نظام امریکہ کے لئے فائدہ مند ہے۔ کیونکہ وہاں تمام ادارے آپس میں مربوط ہو کر ایک ایسی پالیسی بناتے جس پر تمام تھنک ٹینک متفق ہوتے ہیں۔ ان پالیسیوں پر تمام اداروں سمیت وہاں کے عوام بھی ایک یک جان ہو کر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس طرح امریکا میں جو بھی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں ان پالیسیوں سے امریکا کو ہمیشہ فوائد ہی حاصل ہوتے۔ اس ہی طرح ہندوستان میں تمام ادارے باہمی تعاون سے ہندوستان کی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں جس کا مقصد ہندوستان کو مضبوط اور طاقتور ملک بنانا ہوتا ہے نہ کہ کسی ایک ادارے کو۔ اس کی وجہ سے ان پالیسیوں کی درست سمت کی بناءپر ہندوستان کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ مگر پاکستان کے اداروں کا رویہ جاگیردارانہ ذہنیت کے مطابق ہوتا ہے جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا کہا ہوا آخری حکم ہوتا ہے۔اس کے آگے کسی چڑیا کو پر مارنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اگر کسی نے ان پالیسیوں سے انحراف کرنے کی کوشش کی تو اس کو بزور طاقت دبا کر اس کا منہ بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں ترتیب دی جانے والی اپنی جاگیردارانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھ کر پاکستان کے لئے دوسرے تمام اداروں کے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اس کا سراسر نقصان پاکستان کو ہوتا ہے۔ دیرینا مرض کا علاج یہ ہی ہے کہ دوسروں کے حقوق کو دابنے کا سلسلہ ختم کرکے اس جاگیردارانہ ذہنیت کا خاتمہ کیا جس نے پاکستان کے قیام سے لے کر اب نقصان ہی نقصان پہنچایا۔ اس طریقہ کو ختم کیا جائے جو امریکہ نے دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ روا رکھا ہے یا ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ اپنے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ یا مرزا غالب کا میر مہدی مجروح کے ساتھ روا رکھا ہے۔
398