اسٹرائیک اپنے زوروں پر تھی، پروازوں کا سلسلہ درہم برہم تھا۔ مسافروں کا اژدھام پریشانی کا شکار تھا۔ ہڑتال میں شامل نہ ہونے والے چھوٹے اور بڑے ملازمین ان مسافروں کی اپنے طور مدد کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ مسافر تھے کہ مرنے مارنے پر آمادہ تھے۔ وہ بھی دور دراز علاقوں سے اپنی اپنی ملازمتوں سے چھٹیاں لے کر اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارن کے ارادے سے یہاں آئے تھے اپنے وطن میں پہنچ کر بے چین ہو گئے تھے کہ قریب پہنچ کر بھی دور تھے۔ اپنا غصہ اپنی محرومیاں اور مجبوریاں ملازمین پر نکال رہے تھے۔ ملازمین بھی مجبور تھے کہ ایک حد تک وہ بھی مدد کرسکتے تھے۔ ٹرمینل کے باہر ہڑتالی ملازمین کے ساتھ مسافروں کو بھی اندر آنے سے روک رہے تھے ان ہڑتالیوں میں پیش پیش ایئر کروو تھے جن کے مفاد ہڑتالیوں کے مطالبات سے زیادہ وابسطہ تھے، کیوں کہ اس میں ذاتی فائدے بھی زیادہ تھے۔ باقی ملازمین تو نہ تین میں نہ تیرا میں تھے۔
ہڑتالیوں کے مطالبات یہ تھے کہ ایئرلائن کی اعلیٰ انتظامیہ نے دوسری بڑی ایئرلائن سے جو اشتراک کا معاہدہ کیا تھا اس کو منسوخ کیا جائے۔ قومی ایئر لائن مستقل خسارے کا شکار ہو کر زبوں حالی کا شکار ہو کر قریب المرگ ہو چکی تھی۔ جہازوں کے پرزے نہ ہونے کی قیمت تک دینے کی استاعت سے محروم ہو چکی تھی۔ جہازوں کے فلیٹ کا بڑا حصہ ہینگر میں پرزوں کے انتظار میں آپریٹس نہیں تھا۔ جہازوں کے چھوٹے سے فلیٹ سے ملازمین پورا شیڈول چلانے کی کوششوں میں رہے ایک برادر ملک ترکی کی بہت بڑی ایئر لائن سے یہ معاہدہ طے پایا کہ تمام مغربی ممالک کی پروازوں کی ذمہ داریاں ان کی ایئر لائن سنبھالے گی۔ کیوں کہ اس کا ہیڈ کوارٹر یورپ کے شہر استنبول کے صدر مقام پر تھا۔ اور باقی مشرقی ممالک کی اور پروازوں کی ذمہ داری ہماری قومی ایئر لائن انجام دے گی جو کہ مغربی پروازوں کی تعداد کے مقابلے میں کم تھا مگر دونوں ایئرلائنوں کو برابر کا حصہ ملنا تھا، میں کیونکہ ہڑتالیوں کے ساتھ اس لئے نہیں تھا کہ میرا خیال تھا کہ اس معاہدے میں ہماری قومی ایئرلائن کا بے پناہ فائدہ تھا جو کہ کم خر بالا نشیں تھا، ہماری اس ایسا یورپ ترکی کی برادر ایئرلائن کو بھی فائدہ تھا۔ مگر اس معاہدہ کا سب سے بڑا نقصان ہمارے ان برادر خلیجی ممالک کا تھا جن کو ہماری افرادی قوت نے بڑی بڑی ایئرلائن بنا کر دیں یہاں تک کہ ان کا ملک ترقی یافتہ بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ ایک زمانے میں ہمارے ملک کی طرح ہماری قومی ایئرلائن بھی دنیا کی بڑی ایئرلانوں میں شمار ہوتی تھی ہمارے ملک نے اور ہماری ایئرلائن نے اپنی ترقی میں ان پسماندہ ممالک کو بھی شریک کرنے کے لئے ان پسماندہ ممالک کی ہر طرح سے مدد کی تھی۔ ان ممالک کو ریگستان سے ترقی یافتہ ممالک میں شامل کروایا۔ غریب ریاستوں کو ان کو اپنی بہترین افرادی قوت، ٹیکنیکل قوت، مسلسل فراہم کی ان کے تیل کے بند کنوﺅں کو کھول کر اس کی طاقت سے ان کو آج اس مقام پر کھڑا کر دیا کہ وہ آج دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج یہ ممالک اپنی ترقی میں بجائے ہمیں شریک کرنے کے یہ سازشیں کررہے ہیں کہ کیسے ہم ان کے محتاج بنے رہیں۔ یہ ہمیں ساری زندگی اپنا غلام یا جس کو یہ رفیق کہتے ہیں بنا کر رکھیں۔
یہ حقیقت ہے جب سے یہ ممالک آسودہ حال ہوئے ہ یں ہم انحطاط کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ جب کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں ہمارا ملک پاکستان تھا اب ہم تیزی سے غربت کا شکار ہونے والے ممالک میں شامل ہو رہے ہیں اس وقت سے یہ ممالک جن کی ہم نے بہت مدد کی وہ ترقی کی منمازل طے کررہے ہیں۔ آج کراچی، کوئٹہ، پشاور، ملتان، فیصل آباد یا لاہور کیوں دبئی، ابودہبی، شارجہ، قطر، بحرین،کویت، جدہ، ریاض کی طرح نہیں۔ یہ تمام خلیفی اور عرب ممالک ہمارے ساتھ جاگیرداروں جیسا سلوک کررہے ہیں جس کی محنت، مشقت سے اتنے بڑے ترقیاتی مرتبے پر پہنچے مگر ہاری کو صرف دو وقت کی روٹی کے لئے اپنا محتاج بنا کر رکھ رہے ہیں یہ لوگ خود تو یورپ امریکہ کے عیاش کدوں میں عیاشیاں کررہے ہیں ہماری افرادی قوت کو اپنے گرم علاقوں کی ترقی پر معمور کیا ہوا ہے مگر سلوک ہمارے ساتھ اور ملک کے ساتھ ہاری جیسا۔ یعنی رفیق۔
اس کے برعکس چین کے صدر کے اس الوداعی پیغام میں انہوں نے ان خدمات کو یاد دلایا جو پاکستان نے چین کے ابتدائی مشکل وقت میں ساتھ دے کر انجام دیں تھیں اب پاکستان کو اس کے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے تقریباً چھیالیس ارب ڈالر کے منصوبوں سے مدد کی ہے۔ یعنی انہوں نے اب جب کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں انہیں اپنے برے دن کے ساتھی پاکستان کو فراموش نہیں کیا۔ یہ ہوتا ہے احسان کا بدلہ احسان جو ہمارے دین کی تعلیمات میں شامل ہے۔ دوسری طرف ہمارے بردار اسلامی ممالک ہیں جو ہمارے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر عدم استحکام پیدا کررہے ہیں ان میں تمام ترقی یافتہ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ایران بھی شامل ہے۔ انہوں نے ہمارے مولویوں کو بکاﺅ مال بنا کر آپس میں لڑوانے پر معمور کیا ہوا ہے تمام سیاست دانوں کی دولت اپنے ملکوں میں اپنی ترقی پر لگا رکھی ہے۔ ہمارے ملک کی خلفشار سے سب سے زیادہ یہ ہی ہمارے برادر ممالک فائدے اٹھا رہے ہیں ہماری افرادی قوت سے ترقی دوڑ میں آگے سے آگے نکل جارہے ہیں۔ اور ہمیں اپنا غلما یا ہاری یا رفیق بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پچھلے دنوں پاکستان کے وزیر اعظم کی تجویز پر ترکی اور ملائیشیا نے مسلمانوں کو اسلامو فوبیا سے بچانے کی خاطر کوالالمپور میں ایک مسلم ملکوں کی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تو پاکستان کو اس میں شرکت سے تحکمانا انداز سے روک دیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگر پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت کی تو اس کی تمام امداد روک دی جائے گی اور اس کے باشندوں کو جو ان کے مک میں اپنا خون پسینہ بہا کر ملازمت کررہے ہیں بالکل ان غلاموں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جس طرح قبل اسلام ان ملکوں کے سردار غلاموں کے ساتھ سلوک کرتے رہے اور ان پاکستانی کارکنوں کی بدولت ان کے تیل کے کوﺅں سے حاصل دولت کا جس طرح استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا جارہا ہے اس کا ایک بڑا حصہ اگر تمام مسلمانوں کی فلاح اور بہبود پر خرچ کیا جاتا تو آج وہ خود مغرب کے غلام نہیں ہوتے اور مغرب کے آلہ کار بننے پر مجبور ہو کر مسلمانوں میں انتشار کا باعث نہیں بنتے انہوں نے اپنے جیسے مسلمانوں کو جس طرح رفیق سمجھ کر غلاموں جیسا سلوک برتا ہے اس ہی طرح یہ خود مغرب کے غلام بن کر ان کے لئے بھی رفیق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مغرب ان کو اپنا غلام بنا کر جس طرح اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے اور ان کو اللہ نے جو نعمت دی ہے اس کا بھرپور استعمال کررہا ہے۔ مغرب کا اس سے مقصد یہی ہے کہ وہ ان کے غلام یا رفیق بن گئے ہیں اور یہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ غلاموں کا سلوک کرکے رفیق بنائے ہوئے ہیں۔
426