اس وقت عالمی منظرنامے پر اگر کوئی مسئلہ زیربحث ہے تو وہ رس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے حوالے سے پیشن گوئیاں ہیں۔ کیا یہ جنگ تیسری عالمی جنگ میں بدل جائے گی؟ یہ ایک اہم اور بڑا سوال ہے، جب سے اس تنازعہ نے طول پکڑا ہے دنیا بھر کا میڈیا اور مغربی تھنک ٹینک اس پر اظہار خیال کررہے ہیں اور ان کے تبصروں کا ماخذ صرف اور صرف روس کو اکسانا اور جلتی پر تیل ڈالنا ہے۔ سارا مغربی میڈیا اس بات کو ثابت کرنے پر لگا ہوا ہے کہ امریکہ، نیٹو اور اس کے باقی اتحادی روس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے انہی ملکوں کی آشیرباد سے یوکرین میں اتنی ہمت پیدا ہوئی کہ وہ روس کے ساتھ پنگا لے۔ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو روس کے مقابلے میں یوکرین کی فوجی صلاحیت بہت ہی کم ہے اور آبیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ مغرب کی اس یقین دہانی کے بعد کہ ہم روس کی کسی بھی جارحیت کے نتیجے میں یوکرین کی مدد کریں گے اس جنگ کی وجہ بنی ہے اور اس کے ساتھ امریکہ اور اتحادیوں کی طرف سے روس پر معاشی پابندیاں لگانے سے پوٹن کے اندر کا ہٹلر ایک مرتبہ پھر زندہ ہو گیا ہے اور وہ کسی بھی نتیجے کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ جنگ کے پہلے دن ہی پوٹن نے یوکرین کے حمایتوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر کسی نے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی تو اس کو اتنا سخت ردعمل دیکھن اپڑے گا کہ تاریخ نے ایسا بھیانک منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ پوٹن کے ردعمل کو اگر بغور دیکھیں تو لگتا ہے کہ اس نے اپنے آنکھ اور کان بند کر لئے ہیں اور وہ کسی عالمی ثالثی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا۔ پوٹن ایک سخت گیر شخصیت کا مالک ہے اس کا یہ ردعمل اپنے ملک کے دفاع کے لئے ہے۔
وجہ تنازعہ یہ ہے کہ نیٹو کے ممالک کافی عرصہ سے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنا چاہ رہے تھے اور وہ اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی یقین دہانی پر یوکرین نے اپنے ایٹمی اثاثوں کو ختم کردیا تھا اس کا خیال تھا کہ امریکہ اور نیٹو اس کو پوری عسکری مدد دیں گے جب کبھی ھبی اس کی ضرورت پڑے گی۔
آج بوڑھے آسمان کے نیچے بسنے والے آٹھ ارب انسانوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ یوکرین کو مغرب نے کس طرح تنہا چھوڑ دیا کسی کی جرات نہیں کہ وہ روس پر حملہ آّر ہو اور براہ راست یوکرین کے ساتھ کھڑا ہو اور روس کے خلاف جنگ کرے۔ سارا مغرب سراپا احتجاج ہے اور ٹسوے بہا رہا ہے مگر اتنی ہمت نہیں کررہا ہے کہ روس کی جارحیت کو بزور شمشیر روکے۔ آج یوکرین کا صدر بے یارومددگار دہائیاں دیتا پھر رہا ہے کہ کوئی اس کی مدد کو آئے۔ مگر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ روس پر سخت اقتصادی پابندیوں اور کل ہی کچھ یورپی ممالک نے اسلحہ دینے کا اعلان کیا ہے جو کہ یوکرین کی اشک شوئی ہے۔ رس نے اب تک یوکرین کے بیشتر فوجی اڈے اور حربی سامان تباہ کردیا ہے۔ شہری آبادی کو ابھی تک نشانہ نہیں بنایا گیا۔ جتنے بڑے پیمانے پر یہ جنگ لڑی جارہی ہے اتنا جانی نقصان نہیں ہوا۔
روس، یوروپ اور افریقہ کو گندم ایکسپورٹ کرنے والا بہت بڑا ملک ہے اگر مغربی پابندیاں زیادہ دیر چلیں تو روس نہ صرف گندم کی ایکسپورٹ روک دے گا بلکہ تیل اور گیس کی سپلائی بھی بند کردے گا۔ میری آنکھیں وہ منظر دیکھ رہی ہیں جب انگلینڈ، جرمنی اور فرانس میں ڈبل روٹی یا بروچن لینے والوں کی لائنیں لگی ہوں گی اور گیس کی عدم دستیابی سے یوروپ سردی میں ٹھٹھہر کر دم توڑ دے گا۔ تیل کی عدم دستیابی سے خام تیل کی قیمتیں سو ڈالر بیرل سے تجاوز کر گئی ہیں جن سے پوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان آچکا ہے، غریب اور متوسط طبقے کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ دنیا تیزی سے دو بلاکوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے، ایک بلاک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہے اور دوسری طرف روس، چین اور ایشیائی ممالک کی بڑھتی ہوئی طاقت اور امریکہ کو آنکھیں دکھانا ہے۔
روس ولادی میر پوٹن کی طویل قیادت کی بدولت بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ روندنے کو تیار ہے، وہ اپنا کھویا ہوا دوسری سپرپاور کا اسٹیٹس دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے اور دنیا میں بیلنس آف پاور کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں کوئی دوسرا بلاک ہو جو اس کا رستہ روک سکے۔
قارئین کرام میں سمجھتا ہوں کہ آج مکافات عمل کا نظارہ ہم دیکھ رہے ہیں، پچھلی صدی اور موجودہ صدی کے شروع میں جس طرح سے روس سمیت تمام امریکی اور مغربی ممالک نے مل کر معصوم مسلمانوں کی جانیں لی تھیں آج ان کا لہو پکار رہا ہے اور قدرت نے ماضی کے ان اتحادی ممالک کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ ان کی لڑائی سے معصوم لوگوں کی جانیں بھی جارہی ہیں مگر ہمیں شام، عراق، افغانستان، لیبیا کے معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں پر روس اور امریکہ کی بمباری کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جس مکاری سے روس بشارالاسد کی حمایت میں بمباری کررہا تھا اور امریکہ اس کے خلاف شام کے بے گناہ لوگوں کو موت کی نیند سلا رہا تھا یہ ان کی کھلی جارحیت تھی اور اس وقت اقوام متحدہ اور باقی دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔
روس، امریکہ اور مغربی ممالک کا یہ دوہرا معیار ان کی ملسمان دشمنی صاف ظاہر کرتا ہے۔ افسوس کہ ستاون مسلمان ممالک بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ مسلمان ممالک کا کوئی قبلہ نہیں ہے ان کی آپس کی رنجشیں ان کو دنیا بھر میں کمزور کررہی ہیں وگرنہ اللہ اور اس کے رسول کو ماننے والے اگر ایک ہو جائیں تو دنیا کی تاریخ بدل دیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ آپسی اتحاد کو فروغ دیا جائے اور اپنے آپ کو معاشی اور حربی اعتبار سے طاقتور بنایا جائے کیونکہ آپ کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے، کوئی آپ کی مدد کو نہیں آئے گا۔ امید ہے کہ روس یوکرین جنگ جلد ختم ہو جائے گی اور دنیا سکھ کا سانس لے گی۔
185