وطن عزیز میں گذشتہ کچھ برسوں کے دوران مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور وہ اپنے اپنے شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیم کے میدان میں ان کا آگے آنا ہے، جس کی وجہ سے ان کو روزگار کے بہتر مواقع مل رہے ہیں۔
تعلیم و تحقیق، سماجی خدمت، سیاست، طب، سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس، پرفارمنگ آرٹس، ادب، صحافت، کھیل اور فوج سمیت زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق ملکی آبادی میں خواتین کا تناسب 48 فی صد سے زیادہ ہے۔ وہ عملی زندگی میں سرگرم کردار ادا کر کے معاشی خودانحصاری کی جانب بڑھ رہی ہیں، اس کے ساتھ ملکی ترقی میں بھی ان کا کردار اہم ہے۔ یہاں ہم مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی چند نمایاں اور کام یاب خواتین کا ذکر کر رہے ہیں، جو نہ صرف عورتوں بلکہ پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہیں۔
٭بلقیس ایدھی
ایدھی فاو¿نڈیشن کی سربراہ بلقیس ایدھی نے عملی زندگی کا آغاز 1965ءمیں ایک ڈسپنسری نرس کی حیثیت سے کیا۔ عظیم سماجی راہ نما عبدالستارایدھی سے شادی کے بعد انہوں نے سماجی خدمت کے میدان میں ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ایدھی فاو¿نڈیشن کے تحت چلنے والے کئی پراجیکٹس کی نگرانی کی۔ بالخصوص خواتین اور بچوں سے متعلق ان کے فلاحی منصوبوں کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز سے نوازا۔ ا س کے علاوہ انہیں Ramon Magsaysay Award اور سماجی انصاف کے لیے مدرٹریسا انٹرنیشنل ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔
٭ ملالہ یوسف زئی
ملالہ یوسف زئی دوسری پاکستانی شخصیت ہیں، جنہیں نوبیل انعام ملا۔ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مل کر سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قابل قدر خدمات انجام دیں اور اس ضمن میں دہشت گردوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی بھی پروا نہ کی۔ سوات میں شدت پسندوں کے غلبے کے دور میں انہوں نے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے وہاں کے حالات کے بارے میں ڈائری بھی لکھی۔ 9 اکتوبر2012ءکو، چند شقی القلب دہشت گردوں نے 15سالہ ملالہ کو گولیاں مار کر قتل کرنے کی کوشش کی۔ معجزانہ طور پر ان کی زندگی محفوظ رہی، ابتدائی علاج کے بعد، مزید علاج کے لیے انہیں برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال بھجوا دیا گیا۔ صحت یابی کے بعد سے وہ برطانیہ میں زیرتعلیم ہیں اور دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ 2014ءمیں ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر ملنے والے نوبیل امن انعام کے علاوہ انہیں کئی بین الاقوامی اداروں اور مختلف ممالک سے اعزازات مل چکے ہیں۔
٭ شمشاد اختر
ملکی اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فرائض سرانجام دینے والی شمشاد اختر ماہرمعاشیات، سفارت کار اور دانش ور ہیں۔ اب وہ اقوام متحدہ میں انڈر سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں، اس کے ساتھ اقوام متحدہ کے ادارے UNESCAP کی سربراہ بھی ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔ انہیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون گورنر بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ قبل ازاں وہ ورلڈ بینک کی نائب صدر بھی رہ چکی ہیں۔ حیدرآباد، سندھ میں پیدا ہونے والی شمشاد اختر نے 1975ءمیں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ اسکالرشپ ملنے پر انہوں نے برطانیہ کی جامعات میں داخلہ لیا اور 1980ءمیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اپنی مثال سے ثابت کیا کہ پاکستانی خواتین معاشیات کے شعبے میں بھی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہیں۔
ایک تجربہ کار سفارت کار اور کام یاب مدیر کی حیثیت سے ملیحہ لودھی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ گذشتہ تین برس سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ہیں، اور اس عہدے پر فرائض انجام دینے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ 1952ءمیں لاہور میں پیدا ہونے والی ملیحہ لودھی نے لندن اسکول آف اکنامکس سے پولیٹیکل سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور 1980ءمیں اسی ادارے سے انہیں ڈاکٹریٹ کی سند ملی۔ چند برس لندن اسکول ا?ف اکنامکس میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد 1986ءمیں وطن واپس لوٹیں اور صحافت سے وابستہ ہوگئیں۔ بعد میں ایک قومی انگریزی اخبار کی بانی مدیر بنیں۔ 1994ءمیں انہیں اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے امریکا میں سفیر نام زد کردیا۔ 1999ءسے 2002ءکے دوران بھی انہوں نے یہ فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں انہیں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر بھی تعینات کیا گیا۔
٭ کرشنا کماری
نگرپارکر کے پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری حال ہی میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔ ان کا تعلق دلت برادری سے ہے۔ یکم فروری 1979ءکو پیدا ہوئیں۔ ان کا بچپن بہت غربت میں گزرا۔ وسائل سے محروم اس علاقے میں لڑکوں کے لیے بھی تعلیم حاصل کرنا مشکل ہے، لیکن کرشنا کماری نے ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی تعلیم جاری رکھی۔
ان کی شادی کم عمری میں ہوگئی تھی، لیکن حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ان کے شوہر لال چند نے ان کے تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہ آنے دی۔ کرشنا کوہلی نے عمرانیات میں ایم اے کیا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے علاقے میں سماجی خدمت اور فلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اپنے علاقے تھرپارکر میں بالخصوص خواتین کی تعلیم، خواتین اور بچوں کی صحت، جبری مشقت کے خاتمے، کم عمری کی شادی کی روک تھام اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کے ضمن میں انہوں نے نمایاں کام کیا ہے۔ وہ سیاست اور سماجی خدمت میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے ایک باہمت اور قابل خاتون کو سینیٹر منتخب کرکے اچھی روایت قائم کی۔
٭ عائشہ فاروق
30 سالہ فلائیٹ لیفٹینینٹ عائشہ فاروق کو پاک فضائیہ کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کا تعلق ضلع بہاولپور کی تحصیل حاصل پور سے ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج میں پہلے پہل خواتین کا کردار غیرجنگی کاموں (مثلاً میڈیکل وغیرہ) تک محدود تھا اور پاکستان ایئرفورس میں بھی ایسا ہی تھا۔ تاہم 2003ءسے خواتین کو فائٹر پائلٹ تربیتی پروگرام سمیت‘ ایئروسپیس انجنیئرنگ اور پاکستان ایئرفورس اکیڈمی رسالپور کے دوسرے پروگراموں میں داخلے کی اجازت دی گئی۔
پاک فضائیہ کی ان خواتین فوجیوں کی ترقی کے لیے عہدے کے مطلوبہ معیار پر سمجھوتا نہیں کیا جاتا۔ خواتین فوجیوں نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ وہ صلاحیت میں کسی سے کم نہیں۔ 2013ءکے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج میں تقریباً 4000 خواتین تھیں، جو زیادہ تر ڈیسک جاب اور طبی خدمات تک محدود تھیں۔ لیکن گذشتہ برسوں کے دوران پاک فضائیہ میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کچھ خواتین انسداد دہشت گردی فورس میں بھی کام کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں خواتین ہنگامی حالات میں مدد فراہم کرنے والی ایمرجینسی سروس 1122 کا حصہ بھی بن چکی ہیں۔
٭ ثمینہ بیگ
27 سالہ ثمینہ بیگ ماو¿نٹ ایورسٹ اور دنیا کے سات براعظموں میں واقع بلند ترین پہاڑوں کو سر کرنے والی پہلی اور ابھی تک واحد پاکستانی خاتون ہیں۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ میں واقع وادی شمشال سے ہے۔ انہوں نے 21 برس کی عمر میں یہ کارنامہ انجام دیا۔ ارٹس کی طالبہ ثمینہ بیگ نے کوہ پیمائی کی باقاعدہ تربیت اپنے بھائی مرزا علی سے حاصل کی۔ کوہ پیمائی کے علاوہ دوسرے کھیلوں میں بھی پاکستانی خواتین اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ ان میں نسیم حمید (ریس) ، ہاجرہ خان (فٹ بال) ، ماریہ طور (اسکوائش) ، ٹوئنکل سہیل (ویٹ لفٹنگ) ، پلوشہ بشیر (بیڈمنٹن) ، رباب رضا (تیراکی) ، سعدیہ صدف (سائیکلنگ) اور بسمہ معروف (کرکٹ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
٭ منیبہ مزاری
31 سالہ منیبہ مزاری آرٹسٹ، لکھاری، ٹی وی میزبان اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ 2007ءمیں ایک افسوس ناک کار حادثے کے بعد انہیں وئیل چیئر تک محدود ہونا پڑا، لیکن یہ معذوری انہیں اپنے شعبے میں آگے بڑھنے سے نہ روک سکی۔ انہوں نے فائن آرٹس میں بیچلر ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ اقوام متحدہ میں صنفی برابری اور خواتین کے حقوق کے لیے پاکستان کی پہلی خاتون سفیر خیر سگالی ہیں۔ بی بی سی نے 2015ءکی سو انسپریشنل خواتین کی فہرست میں بھی ان کا نام شامل کیا۔
خواتین کے لیے قانون سازی
آئین پاکستان خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مختلف اوقات میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قوانین کو موثر کرنے اور نئے قوانین بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد خواتین کے حقوق، اور ان سے متعلق قانون سازی کے زیادہ تر اختیارات اور وسائل صوبوں کو سونپ دیئے گئے ہیں۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران وفاقی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں نے خواتین سے متعلق قانون سازی میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید ان اسمبلیوں میں خواتین کی قابل ذکر نمائندگی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25 ، (1) اور (2) کے مطابق تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور صنفی فرق کی وجہ سے ان میں کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا، جب کہ آئین کا آرٹیکل 25 (3) ریاست کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ خواتین اور بچوں کے مسائل پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی قانون سازی کرے۔
آئین کا آرٹیکل 34 کہتا ہے کہ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی مکمل شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ 2011ء سے اب تک وفاقی حکومتیں خواتین کے لیے چند اہم قوانین کی منظوری دے چکی ہیں، جن میں تیزاب پھینکنے پر سخت سزائیں، خواتین کے خلاف مختلف جرائم کی روک تھام، غیرت کے نام پر قتل، برقی جرائم کو روکنا اور ہندو میرج ایکٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان معاملات پر مختلف صوبائی حکومتوں نے بھی قانون سازی کی ہے، جو کہ خوش آئند ہے۔ یہ رجحان بتا رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو مزید سنجیدگی سے لیا جائے گا اور مجموعی طور پر صورت حال میں نمایاں بہتری دیکھنے کو ملے گی۔
588