بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 460

ریاست مدینہ کا سفر اور میں۔۔۔شرمندہ شرمندہ

ریاست مدینہ کا سفر ہے اور میں
شرمندہ شرمندہ
ملکی حالات ہو رہے ہیں
پیچیدہ در پیچیدہ
ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے ابتداءہی سے عوام کو ایسا سنہرا خواب دکھایا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان کچھ بول ہی نہ سکے کہ معاملہ ریاست مدینہ کا تھا۔ وہ ریاست مدینہ جہاں کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں تھی، نہ ہی کسی گورے کو کالے پر، نہ کسی مہاجر کو انصار پر لیکن یہ نیا پاکستان جسے آہستہ آہستہ ریاست مدینہ بنانے کی کوشش ہمارے محترم وزیر اعظم کررہے ہیں، کسی نشئی کے خواب سے زیادہ نظر نہیں آتا کہ ملکی حالات روز بروز دگرگوں ہوتے جاتے ہیں۔ عمران خان کے ریاست مدینہ میں آج تک کوٹہ سسٹم برقرار ہے۔ غریب انسانوں کے لئے دو وقت کی روٹی عزت سے کمانا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ریاست مدینہ سے تو سود کا خاتمہ کردیا گیا مگر یہاں تو سود کے کاروبار میں دن بدن ترقی دکھائی دے رہی ہے۔ ریاست مدینہ میں تو پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے مفت پانی کے لئے وقف کردیا گیا تھا مگر یہاں آج تک پاکستانیوں کو ان کا اپنا پانی مہنگے داموں چوری کرکے فروخت کیا جارہا ہے۔ ریاست مدینہ میں خواتین کی حرمت کو کوئی خطرہ نہیں تھا مگر نئے پاکستان کی ریاست مدینہ میں نہ کسی بچی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی معصوم بچے کی۔ حتیٰ کہ اللہ کے گھر بھی نعوذ باللہ بدکاری کا اڈا بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں آج تک حکومت کرنے والے مفاد پرستوں کا ٹولہ آج غدار قرار دیا جا چکا ہے جب کہ یہی ٹولہ کل ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے دعویٰ کرتا دکھائی دے رہا تھا اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھا۔ ہماری افواج گزشتہ برسوں میں انہی چوروں لٹیروں اور غداروں کو پاکستان کے قومی دنوں کو سلامی پیش کرتے رہے ہیں مگر شاید وہ پرانا پاکستان تھا اس لئے نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کے نئے قوانین کے مطابق یہ تمام حب الوطن آج غدار قرار پائے ہیں۔ اس ملک کے رکھوالے، سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جو آئے دن نت نئے میزائل کا تجربہ کرکے دنیا بھر کو خصوصاً دنیا کے اسلامی ممالک کو اعتماد دلاتے رہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں پاک فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس ہے اور کسی بھی مشکل کی گھڑی میں صف بہ صف کھڑی ہو کر دشمن کے دانت کھٹے کردے گی اور پاکستانی عوام بھی میٹھی نیند سے جاگ اٹھے کیونکر ہمارے یہ رکھوالے تو ڈیڑھ لاکھ ڈنڈا بردار مدرسہ کے طالبعلموں سے خوفزدہ ہو گئے اور مولانا فضل الرحمن کی ایک گیڈر بھکی کے آگے چاروں شانے چت ہو گئے۔ ہم سنتے آئے تھے کہ ماضی میں جب بھی بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا ہماری افواج نے جرات و شجاعت سے دشمن کے دانت کھٹے کردیئے اور بھارتی افواج دم دبا کے بھاگ کھڑی ہوئی۔ ہر وقت قومی ترانہ اور ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے نغمہ سن سن کر اپنے خون کو گرماتے رہے مگر کشمیر جو ہمارا اٹوٹ انگ تھا، جب خاموشی سے بھارت کی گود میں جا گرا اور ہمارے کشمیری مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہاتھ اٹھا اٹھا کر دھائیاں دیتی رہیں کہ خدارا ہماری مدد کو پہنچو تو ہم نے پیٹھ موڑ لی اور سفارتی سطح پر بیانات دیتے رہ گئے۔ ہمارے وزیر اعظم اقوام متحدہ میں گرما گرم خطاب کرتے رہے اور پاکستان کے نقشہ میں کشمیر کو شامل کرکے جشن مناتے رہے جب کہ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرکے کشمیریوں کو گھروں میں مقید کردیا۔ مگر ہم اپنے اٹوٹ انگ کو ٹوٹتا دیکھتے رہے اور کسی معجزے کے انتظار میں آج تک بیٹھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں بھول چکے ہیں۔ ہم فوجی مشقیں ضرور کرتے ہیں مگر حقیقی جنگ سے خوفزدہ ہیں کہ ہماری شہروں میں رہنے کی عادت نے ہمیں جنگلات اور محاذوں پر جانے سے خوفزدہ کردیا ہے اور شہروں میں اس قدر مہنگی مہنگی پراپرٹیاں اور پروجیکٹس چل رہے ہیں اور نرم گدوں کا نشہ ایسا ہے کہ کس کمبخت کا دل چاہے گا کہ خود کو جنگ کی جانب دھکیلے۔ سو عمران خان جیسا ایک حب الوطن ہمیں مل گیا ہے جو ہر حکم پر آمنا و صدقنا کہہ دیتا ہے اور ہر چند روز کے بعد ریاست مدینہ کا نعرہ لگا دیتا ہے اور یوں پاکستان کے عوام معجزہ کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
حال ہی میں کراچی کے دو جزیروں پر بھی قبضہ کی خبریں آچکی ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ جب ان جزیروں پر بھی ریاست مدینہ کا نام لے کر نعوذباللہ نائٹ کلب اور جوئے کے اڈے کھول دیئے جائیں گے کیونکہ جب سعودی عرب میں جہاں اصلی ریاست مدینہ قائم ہے یہ سب جائز قرار دیا جا چکا ہے تو ہم تو پھر حکم کی بجا آوری والے لوگ ہیں۔ ہم کیسے حکم کی تعمیل سے پیچھے رہ جائیں گے۔ دعا کریں کہ ریاست مدینہ کی تکمیل میں جو کسر رہ گئی ہے وہ بھی جلد پوری ہو کیونکہ حالات بتا رہے ہیں کہ اب پاکستان کا وجود تو خطرہ میں ہے بس ریاست مدینہ کے مکمل قیام کا انتظار ہے اور انتظار میں روز بروز شدت آرہی ہے۔
اُٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے سینوں میں
کسی کو فکر نہیں قوم کے مسائل کی
ریا کی جنگ ہے بس حاشیہ نشینوں میں
قصور وار سمجھتا نہیں کوئی خود کو
چھڑی ہوئی ہے لڑائی منافقینوں میں
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے اُن کے جانشینوں میں
یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لئے
کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں
(حبیب جالب)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں