پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 154

”زمانہ چال قیامت کی چل گیا“

پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے نے تاریخ رقم کردی ہے۔ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ق لیگ اور تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کردیا۔ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں گزشتہ تین روز سے جس ہیجان میں مبتلا تھیں وہ دلیل تھا کہ نوشتہ دیوار لکھا نظر آرہا تھا، وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے متعلق تمام تدبیریں اور جوڑ توڑ کے باوجود ناکامی مقدر ہوئی اور پنجاب فی الحال ہاتھ سے نکل گیا۔ 63 رکنی کابینہ صرف 2 دن میں موخر ہو گئی۔ اتحادی جماعتوں کا ہنگامہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ فیصلہ آنے سے قبل اتحادی جماعتوں کا عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ کا فیصلہ اور عدالت کے فیصلے کو مسترد کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا، یہ گویا مہر لگانے کے مترادف تھا کہ مایوسی انتہا کو پہنچ چکی۔ فل کورٹ پر اصرار کرتے وقت یہ بھلا گیا گیا کہ عمران خان کو گھر بھیجنے میں ایسا ہی مختصر بنچ کام آیا تھا۔ ن لیگ کی عدلیہ سے مخاصمت قدیم ہے، عدالتوں پر حملے کی روایت ن لیگ ہی کی قائم کردہ ہے، قانونی ذرائع کے مطابق بائیکاٹ صرف ایک سیاسی فیصلہ ہے، آئینی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں، اس کے علاوہ گزشتہ روز اتحادی جماعتوں کے وکیل، حمزہ شہباز کے وکیل، چوہدری شجاعت کے وکیل کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر قانون بھی عدالت کے سامنے اسپیکر کی رولنگ اور چوہدری شجاعت کے خط کے حق میں دلائل دیتے رہے۔ کئی حلقوں سے یہ سوال بھی اپنی جگہ پر یہ حیثیت رکھتا ہے کہ چوہدری شجاعت سے خط لکھوانے کے لئے کیا ان کی علالت کا فائدہ بھی اٹھایا گیا۔
پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی نے ہی یقینی طور پر تمام حلقوں بشمول سیاسی جماعتوں کو یہ واضح اشارہ دیدیا تھا کہ پرانے سیاستدانوں کی قبائیں سمیٹنے کا وقت قریب آرہا ہے۔ نئی نسل اور سوچ کا زاویہ نگاہ کچھ اور ہے۔ عمومی طور پر ضمنی انتخابات میں لوگوں کی شرکت قلیل ہوتی ہے مگر اس دفعہ جو مناظر سامنے آئے اس نے تمام عام انتخابات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ عوام جس طرح اپنے حق رائے دہی کو استعمال کرنے کے لئے نکلے اس سے ووٹ کی طاقت کا شدت سے احساس ابھر کر سامنے آیا۔ 20 میں سے 15 نشستیں تحریک انصاف، 4 ن لیگ اور ایک آزاد امیدوار کے حصے میں آئیں۔ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ جس کی آبادی 12 کرور کے لگ بھگ ہے اور جس پر کئی دہائیوں سے ن لیگ کا قلعہ ہونے کا دعویٰ رہا کی سیاست تبدیل ہو جائے گی اور یہ مفروضہ جو عام طور پر بارہا دہرایا جاتا رہا ہے سیاسی حلقوں میں کہ ایوان بالا کا راستہ پنجاب کی راہداریوں سے گزرتا ہے کو بھی دھچکا لگ سکتا ہے گو کہ موجودہ صورت حال ظاہر یہ ہی کررہی کہ اب 13 جماعتی وفاقی حکومت کو اپنے قدموں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہو سکتی ہے۔ گو کہ ن لیگ نے ظاہری طور پر اپنی شکست تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر دورن خانہ قیامت تھی جو چہار طرف گزر گئی۔ یہ بھی کافی حد تک درست ہے کہ حمزہ کی سکست نے لیگ کے اندرونی حلقوں اور خاص طور پر شریف گھرانے میں طمانیت پہنچائی۔ اقتدار ایک پیچیدہ اور گھناﺅنا کھیل ہے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی تاریخ میں کتابیں ایسی مثالوں سے بھری ہیں جس میں عقب سے حملہ کرنے والے اپنے ہی لوگ تھے۔ اس وقت شہباز شریف وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہیں شاید یہ صورت حال پھر کبھی نہ دہرائی جا سکے۔ ماضی میں نواز شریف شاہد خاقان عباسی کو ان پر فوقیت دے چکے ہیں۔ شہباز شریف کسی صورت اس وقت لندن سے آنے والی ہدایتوں پر عمل کرنے کے پابند نہیں اور نہ ہی وہ عملی طور پر ایسا کرنا چاہیں گے۔ نواز شریف کی واپسی میں تاخیر، مریم کی بیرون ملک روانگی اور اسحاق ڈار کی آمد موخر بہت کچھ کہہ رہی ہے۔
ن لیگ کے رہنما پنجاب کا الیکشن ہارنے کے بعد اب یہ بیان دے رہے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک میں نواز شریف کی مکمل رضامندی شامل نہیں تھی۔ اتحادیوں کے اصرار کی وجہ سے اس میں شرکت کی گئی اور موجودہ حکومت کے قائم ہونے سے قبل بھی بارہا ن لیگ عام انتخابات پر اصرار کرتی رہی۔ عدم اعتماد کی تحریک بنیادی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے شروع کی گئی اور پھر تمام اتحادیوں کو رضامند کیا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نہ پہلے اور نہ اب جلدی انتخابات کے لئے راضی ہوگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس پورے عدم اعتماد اور نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے لائحہ عمل کے ذریعے پی پی پی نے اپنے پرانے حریف ن لیگ کو بہترین انداز میں ٹھکانے لگا دیا ہے۔ خاص کر نواز لیگ اور ان کے حواریوں کو وہ تقریباً انجام تک پہنچا چکے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں آصف زرداری جو حکمت عملی اختیار کی وہ کامیاب تو نہ ہو سکی مگر پنجاب کے ایک اور زیرک سیاستدان کو جو زک انہوں نے پہنچائی ہے وہ تاریخ میں نمایاں باب بن کر زندہ رہے گی۔ چوہدری شجاعت کو اپنی ہی جماعت میں بے توقیر انہوں نے کیسے کیا وہ آئندہ وقت بتایا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ دوست محمد مزاری تو شاید اب کھبی سیاست میں لوٹ نہ سکیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئین سے انحراف کرتے ہوئے ایک شق کا حوالہ جیسے دیا وہ ان کی کم علمی اور کم فہمی کا اظہار کرتا ہے۔
اس وقت حریک انصاف پر ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، بہت ہی زیرک نظری اور سمجھداری سے کام لینا ہوگا۔ تحریک انصاف اس وقت پنجاب میں حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق پر ور دے گی کہ عام انتخابات جلد از جلد کروائیں جائیں، اس وقت تحریک انصاف مقبولیت کے عروج پر ہے، وہ دو تہائی اکثریت کی امید رکھے گی۔ وہ سابقہ اتحادی جماعتیں جنہوں نے کشی ڈوبتی دیکھ کر سمندر میں چھلانگ لگا دی تھی پس و پیش کا شکار رہیں۔
ن لیگ کو اس وقت شکست کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنے کا بھرپور موقع میسر آیا ہے اس پورے عمل میں سب سے بڑی مات ن لیگ کے حصے میں آئی ہے اور اگر اب بھی ن لیگ گزشتہ ادوار کی طرح ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگانے کے باوجود اور اس اصرار کے باوجود کے اداروں کو سیاسی مداخلت سے پرہیز کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف کو گرانے میں حصہ دار بنی تو پھر شاید اس کا حشر یہ ہی ہونا چاہئے تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جمہوریت اور سول حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتی۔ چاہے وہ کسی کی بھی حکومت ہوتی اور سیاست کے اس منفی عنصر کی نفی کرتے ہوئے حکومت کی مدت پوری کرنے کی حمایت کرتی۔ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ یہ ہی عذر دیتی رہی ہے کہ ہم آتے نہیں بلائے جاتے ہیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو اس وقت اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات پر بھی نظرثانی کرنی چاہئے، موروثی سیاست پرانی دو بڑی جماعتوں کا چہرہ بن کر کیوں رہ گئی ہے۔ کیا ن لیگ اور پی پی پی میں کچھ ایسے افراد نہیں جو کلیدی عہدوں پر فائز ہو سکے۔ کیا ان جماعتوں کے کارکنوں میں واقعی عزت نفس کا فقدان ہے کہ حکومتی خاندانوں اور اور ان کے نو آموزوں کے سامنے سرنگوں رہتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس پاکستان میں سیاست کرنی ہے اور یقینی طور پر وقت آگیا ہے کہ طریقہ سیاست کو تبدیل کیا جائے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ ہی یہ ہے کہ اس نے عام آدمی کو جگا دیا ہے۔ انداز کہن کو دفنانا ہو گا۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ہندوستان میں نئی وزیراعظم انتہائی غریب اور پسماندہ آبادیوں سے اٹھ کر آئے، عوام میں مقبولیت حاصل کی، ہندوستان کے بعد ہمارا الگ ہو جانے والا حصہ بنگلہ دیش بھی آج خودمختار اور آزاد ملک کے طور پر جانا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستانی عوام پرانے سیاستدانوں سے زچ ہو کر اپنے معاملات خود ہاتھ میں لینے کو تیار ہیں، یہ ایک خوش آئند امید ہے۔ نئے چہرے سیاست میں شامل ہونے چاہئیں۔ ہم فی الفور تجربہ کار سیاسی جماعتوں کی اہلیت دیکھ چکے۔ اقتدار کے علاوہ جن کا کوئی منشور نہیں۔ نئے لوگ پاکستان کی سیاست کی ضرورت ہیں۔ تمام بڑی جمہورتیں حکومتوں میں پارٹی کے سربراہوں اور حکومتی ارکانوں کی الگ ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ پارٹی سربراہ حکومت کا حصہ نہیں ہوتا۔ پارٹی کے اپنے اندر جمہوریت قائم کی جاتی ہے اور اہل ارکان حکومت چلانے کو تفویض کئے جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس وقت پاکستان کی بیشتر آبادی کو عدلیہ پر ایک دفعہ پھر اعتماد کرنے کا راستہ دکھایا ہے۔ تمام مقتدر ادارے پاکستانی ریاست کا اہم ستون ہیں۔ ذمہ داری صرف عوام کی نہیں بلکہ خود اداروں کی بھی ہے۔ اپنی توقیر و ناموس کو مستحکم رکھیں۔ پاکستان کے کئی گھرانے ان زخموں سے چور ہیں جو ان کی اولادوں، گھر کے سربراہوں کے وطن عزیز پر جان قربان کرنے سے انہیں لگے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ایسی ہی حکومت اور سیاست کے لئے ہم نے اپنے پیارے گنوا دیئے۔ ذمہ داری سب کی ہے۔ سیاستدانوں سے لے کر ہر اس فرد کی جو اپنی امانت بے سوچے سمجھے نا اہل کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اور ان تمام کی بھی جن پر بھروسہ کیا جاتا ہے اور امیدیں لگائی جاتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں