367

سائنسدانوں نے ”ڈریکولا ستارہ“ دریافت کرلیا!

پیساڈینا، کیلیفورنیا: آسٹریلوی اور امریکی سائنسدانوں نے مشترکہ تحقیق کرتے ہوئے، زمین سے 3000 نوری سال دوری پر، برجِ عقرب (اسکارپیئن) کے پاس ہی ایک ایسا ستارہ دریافت کرلیا ہے جو اپنے پڑوسی ستارے سے اٹھنے والی گیس کو مسلسل ہڑپ کرنے میں مصروف ہے۔ یعنی وہ کسی ڈریکولا کی طرح اپنے قریبی ستارے کا خون چوس رہا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور ایک دوسرے کے گرد چکر بھی لگا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ستاروں کا کوئی ایسا نظام جو دو ستاروں پر مشتمل ہو، اسے ”بائنری سسٹم“ (ثنائی نظام) بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ دریافت معمول کے ثنائی نظام والے ستاروں سے کچھ مختلف ہے۔
اس میں زیادہ کمیت والا ستارہ ایک ”سفید بونا“ ہے، جو دراصل ہمارے سورج جتنا ہی ایک ستارہ ہے جو اپنا سارا نیوکلیائی ایندھن پھونکنے کے بعد اب بوڑھا ہوچکا ہے اور جس سے خارج ہونے والی روشنی بھی بہت کم پڑ چکی ہے۔ اس کے پڑوسی ستارے کو اگرچہ ”بھورا بونا“ (براو¿ن ڈوارف) کہا جاتا ہے لیکن وہ صحیح معنوں میں ستارہ نہیں ہوتا۔
بھورے بونے کو ”ناکام ستارہ“ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ستارہ بننے کےلیے اس کی کمیت تھوڑی سی کم رہ جاتی ہے لیکن پھر بھی یہ ستارے کے مقابلے میں ایک قدرے کم گرم گیسی گولے کے طور پر کروڑوں اربوں سال تک اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔
اب تک جتنے بھی ڈریکولا ستارے دریافت کیے گئے ہیں، ان سب میں گیس ہڑپ کرنے والے ستارے کی کمیت، گیس سے محروم ہونے والے ستارے کے مقابلے میں خاصی زیادہ ہوتی تھی جبکہ دونوں ہی باضابطہ ستارے ہی ہوتے تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی سفید بونے کو ایک بھورے بونے کی گیس ہڑپ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
بھورا بونا بڑی تیزی سے اپنے مرکزی ستارے یعنی سفید بونے کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ اس دوران جب وہ اپنے مدار میں سفید بونے سے دور ہوتا ہے تو اس سے کم گیس اٹھتی ہے لیکن جیسے جیسے وہ اپنے مرکزی ستارے (سفید بونے) سے قریب ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے بھورے بونے پر مرکزی ستارے کی کشش بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ نتیجتاً اس کے بالائی حصے پر موجود گیس بھی اوپر کو اٹھتی ہے اور مچھر مار کوائل جیسا مرغولہ نما راستہ طے کرتی ہوئی اس سفید بونے میں جا گرتی ہے۔ اسی وجہ سے کچھ دیر کےلیے سفید بونے سے آنے والی روشنی میں اچانک اضافہ ہوجاتا ہے۔
ایک باقاعدہ وقفے سے بار بار کم اور زیادہ ہوتی روشنی کے باعث ایسے ستاروں کو ”کیٹاکلزمک ویری ایبل“ (پرتشدد متغیر ستارے) بھی کہا جاتا ہے۔ ان ہی ستاروں کا دوسرا نام ”ویمپائر اسٹار“ بھی رکھ دیا گیا ہے جسے یہاں ہم نے ”ڈریکولا ستارہ“ کا عنوان دیا ہے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ تازہ دریافت کا انحصار ان تصویروں پر ہے جو ناسا کی خلائی دوربین ”کیپلر“ نے اپنے مشن کے دوسرے حصے میں آسمان کا تفصیلی سروے کرتے دوران بنائی تھیں۔ اگرچہ یہ مشن تو 2018 میں ختم ہوچکا ہے لیکن صرف چند سال کے عرصے میں اس سے ہمیں اتنا زیادہ ڈیٹا حاصل ہوا ہے جسے کھنگالنے کا کام اب تک جاری ہے۔
ڈریکولا ستارے کی انوکھی دریافت اور اس بارے میں دیگر تکنیکی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ”منتھلی نوٹسز آف دی رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی“ کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں