نئی نسل کے لئے بے حسی کا پیغام 172

سارہ انعام کا قتل

ابھی ہم نورمقدم کے قتل کو نہیں بھول پائے تھے کہ ایک اور اندوہناک واقعہ سارہ انعام کا ہماری سماعت سے ٹکرا رہا ہے۔ کینیڈا سے تعلیم حاصل کرنے والی سارہ انعام ایک سادہ طبعیت اور روحانی شخصیت کی مالک تھی۔ بتایا جارہا ہے کہ اس نے شاہ نواز کو اس کی تمام برائیوں کو جانتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ ایک Drug Addict ہے۔ اپنا شریک سفر بنایا۔ اس نے اپنی دوستوں کو بھی یہی کہا کہ وہ اس انسان کو اس دلدل سے باہر نکال لے گی اور وہ بہت پرعزم تھی۔ اس نے اس رشتہ کے بارے میں اپنے والدین کو اعتماد میں اس لئے نہیں لیا کہ کہیں وہ اس رشتہ کے ہونے سے قبل شاہنواز کے بارے میں اصل حقائق جان کر اس شادی میں رکاوٹ نہ ڈال دیں مگر وہ یہ بھول گئی کہ ماں باپ ہمیشہ بچوں کا بھلا چاہتے ہیں۔ آج کل کی انٹرنیٹ شادیاں جس تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہی ہیں اسی تیزی کے ساتھ اپنے انجام کو بھی پہنچ رہی ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ ماں باپ ہر زاویے سے اپنے بچوں کے رشتوں کی چھانٹ پھٹک کرتے ہیں اور پھر شادی صرف دو لوگوں کے رشتہ کا نام نہیں بلکہ یہ دونوں خاندانوں کا ملاپ ہے۔ جسے اکثر بچے فراموش کر دیتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے اور زندگی میں کامیابی کا زینہ طے کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اب ہر بچہ عقل کل ہے اور وہ جو فیصلہ کرے گا وہ ٹھیک ہو گا مگر وقت بدل گیا ہے۔ اب بچہ اپنے معاملات میں اپنے والدین کی مداخلت پسند نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں Divorce Rate روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور ایک بار رشتہ ختم ہو جائے تو پھر دوبارہ آج کی نوجوان نسل شادی کے بندھن میں بندھنے سے اجتناب کرتی ہے اور یہاں تک دیکھنے میں آرہا ہے کہ کچھ بچے شادی کے بجائے صرف Without Marriage Relationship کو ترجیح دے رہے ہیں اور بنا شادی کے ساتھ رہ رہے ہیں اور یہ چیز معاشرے میں بڑھتی جارہی ہے۔
سارہ انعام کا قتل بھی ایک ایسے ہی رشتہ کا نتیجہ ہے کہ جو انٹرنیٹ اور فیس بک کے نتیجہ میں عمل میں آیا۔ شاہنواز نے خود کو ایک دکھی انسان ثابت کرکے سارہ انعام جیسی سادہ طبعیت لڑکی کا دل موہ لیا اور یوں وہ ایک ایسے راستہ پر چل پڑی جس نے اسے قبر میں اتار دیا اور اپنے والدین دوستوں اور عزیزوں کو حیران اور اشک بار کرگئی۔ یقیناً سارہ انعام کی نیت صاف تھی اور اس نے اسلامی نقطہ نگاہ سے ایک نیک کام سر انجام دیا مگر اس کی بدقسمتی کہئیے کہ وہ جس شخص کے ہتھے چڑھی وہ گھریلو ناچاقیوں کا سامنا کرتے کرتے ذہنی طور پر کھوکھلا ہو چکا تھا۔ وہ ڈرگ کا عادی تھا اور کسی ایسی ملازمت میں بھی نہیں تھا کہ جہاں سے وہ کچھ Discipline سیکھ لیتا۔ وہ اپنی پراپرٹی کے کرائے پر اپنے شوق پورے کررہا تھا اور اس کے سامنے کوئی مستقبل بھی نہیں تھا۔ سارہ انعام شاید اپنے پرانے کلاس فیلو ہونے کے ناطے اس سے ہمدردی کر بیٹھی۔ وہ اسے اپنے اسکول کے زمانے کا شاہنواز سمجھ کر اس کے ساتھ رشتہ جوڑ بیٹھی اور یہ بھول گئی کہ اس عرصہ میں وہ کینیڈا میں رہی، پاکستان میں رہنے والا شاہنواز آج کس قماش کا مالک ہے۔ یوں وہ بے دردی سے قتل ہو گئی۔ وہ دنیا دیکھی ہوئی لڑکی تھی مگر انتہائی نفیس اور مذہب سے قریب، اس نے اعلیٰ ملازمتیں کیں۔ جہاں ملازم رہی وہاں ایسے نشان چھوڑ گئی جو ناقابل فراموش رہے اور اس کے پرانے اور نئے باس اسے یاد کرتے رہے اور اس کے لئے سابقہ کمپنیوں کے دروازے بھی کھلے رہے۔
پاکستان رہ کر شاہنواز کو بہتر انسان بنا کر اپنی زندگی گزارنا چاہتی تھی مگر وہ اپنے اس عزم کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ وہ اچھی پروفیشنل تو بن گئی مگر یہ بھول گئی کہ پاکستان میں انسان نما جانوروں کی کمی نہیں اور بیرون ملک میں مقیم نئی نسل پاکستان میں بسنے والے ان لفنگوں کو نہیں پہچان سکی۔ یہاں شادیاں کرنے والی لڑکیاں یہاں کے نوجوان کو امیگریشن دلوانے کے بعد سنگل مدر بن جاتی ہیں اور زمانے کے دکھوں کو اکیلی جھیلتی رہتی ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے ہمارے معاشرے کا اور ہمیں شرم آتی ہے کہ ”ہم مسلمان ہیں“۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں