دنیا کے نقشے پر ایک ملک تھا جسے دنیا کا سب سے بڑا ”اسلامی“ ملک کہا جاتا تھا اور جس ملک میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اس ملک کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس کے بنانے کا مقصد ”لا الہ الا اللہ“ تھا۔ اس ملک کے متعلق بیان کیا جاتا تھا کہ یہ ملک اس دنیا میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جہاں کا معاشرہ انصاف پر مبنی ہوگا جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہوں گے۔ جہاں عورتوں کی عزتیں اتنی محفوظ ہوں گی کہ شاید و باید، جہاں بھوک سے کوئی دم نہیں توڑے گا جہاں جہاں امن و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ جہاں اقلیتیں اس قدر محفوظ ہوں گی کہ انہیں کوئی تفریق محسوس نہیں ہو گی جہاں یتیموں، غریبوں اور بیواﺅں کے لئے ایسی فضا ہو گی کہ کسی کو احساس محرومی نہیں ہوگا۔ یہ سرزمین صرف اور صرف انصاف کے اسلامی اصولوں پر معاشرہ تشکیل دے گی جہاں حکمرانوں اور عوام کے لئے انصاف کے دونوں پلڑوں میں توازن ہوگا۔ جہاں ہر فرد کے لئے بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ غرض کہ اس جنت ارضی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیئے گئے۔ جن میں صباح کی جنت کی وہ تصویر کھینچی گئی کہ یہ ”سادہ لوح“ قوم جس نے سینکڑوں سال ہندوستان میں حکمرانی کی تھی گو کہ وہ حکمران بھی مسلمان تھے مگر کوئی اسلامی ریاست کے دعوے دار نہیں تھے انہوں نے ملک پر حکومت اسلام کا دعویٰ کرکے نہیں کی تھی بلکہ عوام کو بنیادی حقوق، انصاف، رواداری اور کھلے دل سے انہیں انسان سمجھ کر کی تھی اور یہی رواداری اور مساوات نے باہر سے آنے والوں کو ”مہا بلی“ بنانا اور مغلوں کو اپنی بیٹیاں دیں، مغلوں نے بھی کھلے دل سے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا، اعلیٰ عہدوں سے نوازا، فوج میں اہم ترین ذمہ داریاں دیں اور اس طرز حکمرانی کی بدولت انہوں نے لوگوں کے دلوں پر راج کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ جب تک یہ طرز حکمرانی رہا، مسلمانوں نے ہندوستان پر حکمرانی کی مگر جب اورنگزیب نے اس طرز کو چھوڑ کر خود کو خالص مسلمان تصور کرکے دکن میں مسلمانوں کے مخالفین قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا جس نے سکھوں کے خلاف کارروائیاں کیں اور خود کو کٹر مسلمان ثابت کرنے کی طرز اختیار کی تو مغل سلطنت زوال پذیر ہونا شروع ہو گئی اس نے باپ کو قید کیا، بھائیوں کی آنکھوں میں سلائی پروا کر انہیں اندھا کرنے جیسے اقدامات کئے اور خود قرون اولیٰ کا مسلمان ثابت کرنے کے لئے ٹوپیاں بنا کر فروخت کرکے اور قرآن لکھ آمدنی کا ذریعہ زندگی گزارنے کا شہرہ کروایا تو اس کی منافقت کھل کر سامنے آئی کہ قول اور فعل کے تضاد کو اسلام کا نام دینے والے کا کردار کیا تھا۔
تو بات تھی کہ پاکستان کا قیام جو اسلام کا نام لے کر کیا گیا وہاں اسلام کے ساتھ کیا ہوتا تھا اور وہاں مسلمانوں کا منافقت کا لبادہ کیسے تار تار ہوتا تھا ان نادان افراد کو اگر اس کا ادراک ہوتا تو وہ اپنے اباﺅ اجداد کے صدیوں سے چلتے کاروبار اور مال کو چھوڑ کر کبھی اس سرزمین کا رُخ نہ کرے۔ یہاں نہ ان کا دین قائم رہنا تھا نہ ہی دنیا۔ ہاں ان لوگوں سے قطع نظر جو ایسے مواقع پر اپنی گندی فطرت کے مطابق فوائد حاصل کرنا بخوبی جانتے ہیں وہی اس جنت ارضی میں مزے میں رہے، یہ منافق وہی تھے جیسے کہ اسلام آنے کے بعد وہ کفار جنہوں نے جب دیکھا کہ اب جائے فرار کوئی نہیں ہے تو وہ مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر اس مال غنیمت میں حصہ دار ہو گئے۔ جو جنگوں میں حاصل ہوتا تھا غرض کہ ہندوستان کو تقسیم کرکے مسلمانوں نے اپنی ”جنت گمشدہ“ حاصل کرلی یہ ان سادہ لوح افراد کے لئے بنی اسرائیل کی طرح خدا کی وعدہ کی ہوئی زمین تھی جہاں انہیں من و سلویٰ ملنا تھا مگر اس پاکستان کے بنانے والوں نے کیا پاکستان صرف اور صرف مسلمانوں کے لئے بنایا تھا؟ کیا سرزمین ان مذہب کے ٹھکیداروں کے لئے حاصل کی گئی تھی جو اپنے علاوہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ان تعصب ذہنیت کٹر مذہبی ٹھیکیداروں کے لئے بنائی گئی تھی جو یہاں ایک نظام حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ جہاں دوسرے مذہب والے کو زندہ رہنے کا حق نہ ہو؟ کیا ملک ان مولویوں کے لئے بنایا گیا تھا جو خود کو قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے بھی معتبر اور افضل سمجھتے تھے اور جو نہ صرف دیگر مذہبوں بلکہ اپنے فرقے کے علاوہ دیگر فرقوں کے ماننے والوں کو کافر اور زندیق تصور کرتے تھے؟ قائد اعظم نے تو کبھی ایسے پاکستان کا تصور بھی نہیں کیا تھا جہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب اور کسی اور فرقے کے ماننے والوں کو زندہ رہنے کا حق نہ دیا جائے۔ انہوں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ پاکستان کی ریاست کا مذہب اسلام ہو انہوں نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہاں درجہ اوّل کا شہری صرف اسلام کو ماننے والا ہو اور دیگر مذاہب والے اچھوت ہوں، یہ مذہبی تفریق یہ حد بندیاں اور لوگوں کو مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کبھی ان کے تصور میں نہ تھی۔
اے خدا دیکھئے کہ پاکستان بننے کے بعد کس طرح سے ایک آئیڈیل سماج کا تصور نہیں کیا گیا تھا کس طرح اس گلستان نے پھولوں کا ایک گلدستہ بنایا گیا تھا، جن کے رنگ، بو، باس تو مختلف تھے مگر یہ سب ایک جگہ جمع ہو کر جو مہک پیش کررہے تھے وہی اس ملک کی پہچان اور جان تھی۔ اس میں تفریق تھی نہ اختلاف۔ بلکہ یہ سب اکائیاں مل کر ملک خداداد کی اجتماعیت تھیں سب کو یہ سرزمین عزیز تھی اور سب کے دل اس کے لئے ڈھرکتے تھے۔ یہ وہ افراد تھے جنہوں نے اس ملک کے حصول کے لئے خلوص دل سے قربانیاں دی تھیں یہ سب اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لئے ہیں بلکہ ایک وسیع تر مفاد میں اپنا سب کچھ قربان کرکے یہاں آئے تھے یہ وہ افراد تھے کہ
جو ذرہ جس جگہ تھا وہیں آفتاب تھا
ذرا بی بی سی کے وسعت اللہ خان کی یہ تحریر پڑھئیے جس میں ایک دردمند دل کی فریاد نظر آتی ہے۔
ہمیں ہماری کتابوں میں نصاکتابوں نے بہت پہلے مار ڈالا۔ کتنے بچے جانتے ہیں کہ محمد علی جناح شیعہ خوجہ تھے۔ کس اسکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اسپیکر اور پہلا وزیر قانون ایک نچلی ذات کا بنگالی ہندو جوگندرناتھ منڈل تھا۔ تین سال تک لیاقت کی کابینہ میں شامل رہا، پھر دل برداشتہ ہو کر پاکستان سے چلا گیا۔ کتنے بچوں کو آج بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھے۔ جنہوں نے نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائیلٹ کیا اور پھر عالمی عدالت کے جج بن گئے۔
کیا ہماری نصابی کتابوں میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیس کا ذکر ہے جو ایک مسیحی کرسچن تھے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس رہے اور انہوں نے کیسے کیسے اہم فیصلے کئے۔ اور وہ کس قدر درویش طبعیت تھے کہ جنہوں نے ساری زندگی لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں گزار دی۔ کیا کسی نے آٹھ دس سال کے بچے نے اس شیعہ ہزارہ جنرل محمد موسیٰ کا نام سنا ہے جس نے 1965ءکی جنگ پاکستان کی بری فوج کی کمان کی تھی، اور اسی جنگ میں ایک کرسچن سلیل چوہدری نے بھارتی فضائیہ کو ناک کے چنے چبوا دیئے تھے؟ اور کتنی عزت دی ہم بچوں کے دلوں میں قائم میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتح چھب جوڑیاں میجر جنرل افتحار احمد جنجوعہ شہید کی معاشرتی علوم کے 65ءکی جنگ کے باب میں ان دونوں جنرلوں کی چمکتے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہوتی تھیں جن میں ایوب خان دونوں کے سینوں پر ہلال جرات ٹانک رہے ہیں اور جس روز یہ پتہ چلا کہ یہ دونوں احمدی ہیں تو فوراً اسکول نصاب اور ہم سب کے دلوں سے اتر گئے۔ پھر اس کے بعد باقی ”مشکوک“ شخصیات کا بھی اسکول کی کتابوں میں داخلہ مرحلہ وار بند ہوتا چلا گیا۔ الحمداللہ اب ہمارا تعلیمی نصاب ہر طرح کی تاریخی ”آلائشوں“ سے پاک ہے۔
یہ احسان فراموش قوم جو محسن کشوں سے بھری ہوئی ہے، کی سزا ہوگی؟
585