امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 712

سر وِدھیّا کے سائے

گزشتہ ہفتہ نوبل انعام یافتہ مصنف ، وی ایس نائیپال کا انتقال ہو گیا۔ نائپال کا پورا نام Surajprad Vidiadhar Naipaul تھا۔ وہ جزائر غرب الہند، یا ویسٹ انڈیز کی ریاست ٹرینیڈا ڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد نو آبادیاتی زمانے میں ہندوستا ن سے ان مزدور وں کے ساتھ ٹرینیڈاڈ لائے گئے تھے جن سے شکر کی صنعت میں مزدوری کروائی جاتی تھی۔ وی ایس نائیپال نے ایک جگہ لکھا تھا کہ مجھے اپنے والد کے خاندان والوں کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں لیکن شاید ان کا تعلق نیپال سے بھی تھا۔
نائیپا ل کے والد سی پرشاد، ایک صحافی تھے اور نائیپا ل کی زندگی پر ان کا گہرا اثر تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نائپال کا مشہورِ زمانہ ناول A House for Mr. Biswas ان کے والد ہی کے جیسے افسانوی کردار پر مبنی ہے۔
نائیپا ل نے تیس سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔ جن میں ناول، افسانوں کے مجموعے، اور مضامین کے مجموعے شامل ہیں۔ انہیں سنہ 2001 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا، اور اس سے پہلے انہیں سنہ 1971ءمیں ادب کا اہم انعام مان بوکر انعام بھی دیا گیا تھا۔
نائپال کی تحریریں انسانوں کی زندگی پر نو آبادیاتی اثرات پر مبنی ہیں۔ وہ نو عمری میں ایک اسکالر شپ پر انگلستان چلے گئے تھے، اور ان کی زیادہ تر عمر سابق نو آبادیو ں کے سفر میں گزری، اور وہ اس پس منظر میں اپنی کہانیاں ، ناول ، اور مضامیں لکھتے رہے تھے۔ ان کی نثر انگریزی زبان کا اعلیٰ ترین نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں نو آبادیوں کے شہریوں کے دکھ درد، اور احساس کو سمویا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے مضامین میں سابقہ نو آبادیوں کے حالات کو تمام تر داغوں اور پھوڑے پھنسیوں کے ساتھ نہایت سفاکی سے بیان کیا ہے۔
ان کی تحریوں میں اعلیٰ ترین زبان اور ادب کا ان کے ہم عصر لکھنے والوں نے اعتراف کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑے اور با اثر نقادو ں اور ادیبوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ممتاز دانشور ایڈورڈ سعید ان کے مخالف نقادوں میں شامل تھے۔ جن کا خیال تھا کہ نائپال نو آبادیاتی نظام کے نمائندہ بن گئے تھے اور وہ نو آبادی نظام کے تحت پسے ہوئے نمائندوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ایڈورڈسعید کو نائپال کی اہم کتاب Among the Beleivers پر سخت اعتراض تھا۔ اس کتاب میں نائیپال نے ایران، پاکستان، انڈونیشیا، اور ملیشیا ، کے سفر کے دوران اپنے مشاہدات تحریر کیئے تھے۔ ان کے نزدیک ان ممالک اور ان جیسے اسلامی ملکوں کے شہری خود ہی اپنی زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں، اور یہ کہ ان کی حالت نو آبادیاتی زمانے میں کہیں زیادہ بہتر تھی۔
دنیا کے بڑے فنکاروں کی طرح نائپال بھی اپنے منفرد مزاج یا اپنی Idiosyncracy کے لیئے بھی مشہور ہیں۔ انہیں ان کے بعض رویوں کی وجہ سے صنفِ نازک کے ساتھ زیادتی کرنے والا بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ ان کا اپنی پہلی بیوی Patricia کے ساتھ غیر ہمدردانہ رویہ تھا۔ ان کے ساتھ پہلے تو پہل نائپال کے رومانوی تعلقات تھے، جو بعد میں سرد مہری میں تبدیل ہو گئے۔ پیٹریشیا آخر میں کینسر کی مریض ہو گئی تھیں۔ نائپال نے اس دورا ن ایک اور خاتون مارگریٹ کے ساتھ تعلق قایم کر لئے۔ اس کے ساتھ ساتھ نائپال نے یہ بھی اقرار کیا کے وہ اس زمانے میں طوائفوں کے پاس بھی جانے لگے۔
بعد میں نائپال کے ساتھ مارگریٹ کے ساتھ تعلق ختم ہو گیا۔ پھر ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ نائپال نے خود لکھا ہے کہ وہ شاید خود اپنی بیوی کی جلد موت کے ذمہ دار تھے۔ پیٹریشیا کے انتقال کے دو ہی ماہ کے بعد نائپال نے پاکستانی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی صحافی نادرہ علوی سے شادی کر لی جو نائپال کے انتقال تک قائم تھی۔ نائپال، نادرہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے۔ نادرہ ان سے عمر میں کم از کم پچیس سال چھوٹی تھیں۔
نائپال کے مزاج کی اہم خصوصیت ایک ہی وقت میں ان کی لطافت اور درشت مزاجی تھی۔ اس کے نتیجہ میں ان کی اپنے اہم ہم عصروں سے مخاصمانہ حد تک معاصرانہ چشمک بھی ہوئی۔ ان میں ویسٹ انڈیز ہی کے نوبل انعام یافتہ شاعر ڈیریک والکوٹ بھی شامل ہیں۔ نائپال اس بات پر بھی ناخوش تھے کہ والکوٹ کو ان سے پہلے نوبل انعام مل گیا تھا۔ والکوٹ نے نائپال کے خلاف Mongoose یا نیولا کے عنوان سے ایک ہجوہیانہ نظم بھی لکھی جو ساری دنیا میں مشہور ہوئی۔ یہ نظم ایک مضمون کے جواب میں لکھی گئی تھی جو نائپال نے والکوٹ کے خلاف لکھا تھا۔
اسی طرح ان کے دوست پال تھیرو Paul Theroux نے ان سے ناراض ہو کر ان کے خلاف ایک بڑی کتاب Sir Vidia’s Shadow تحریر کی جو ساری ادبی دنیا میں مقبول ہوئی۔ ان دونوں کی مخالفت سالہا سال قائم رہی جو بعد میں پھر ایک بار مفاہمت میں تبدیل ہو گئی۔ ہم نے اپنے اس مضمون کا عنوان اسی کتاب سے مستعار لیا ہے۔ اسی طرح نائپال اور سلمان رشدی میں بھی محبت اور نفرت پر مبنی تعلقات تھے۔ رشدی ان کی مخالفت کے باوجود ان کے ادبی رتبہ کے قائل تھے۔
نائپال کے مزاج کی لطافت کی گواہی ان کے انتقال کے بعد پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے آتش تاثیر نے دی ہے جو انہیں اپنا استاد اور دوست گردانتے تھے۔
وی ایس نائپال کو اب سے کئی سال پہلے حکومتِ برطانیہ نے Knighthood اور سَر کا خطاب عطا کیا تھا، اور وہ سَر وِدھیا کہلائے جانے لگے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ان کے انتقال سے عالمی دنیا ایک اہم مصنف سے محروم ہو گئی ہے جس کا اثر سالہا سال قائم رہے گا۔ نائپال کے بار ے میں کما حقہ جاننے کے لیئے Patrick French کی تحریر کردہ ان کی سوانح حیات The World is What is کا مطالعہ لازم ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں