ریاض: سعودی فرمانروا اور ولی عہد کیخلاف بغاوت کا خدشہ، ریاض فوج کے حوالے کر دیا گیا، غیر موجودگی میں باغی شہزادوں کی جانب سے بغاوت کیے جانے کے خدشے کے باعث ارجنٹائن میں جی 20 کانفرنس میں شرکت کے غرض سے موجود ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہنگامی طور پر سعودی فوج کے دستوں کو دارالحکومت ریاض میں تعینات کر دیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ویب سائٹ ڈیلی میل کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان کیخلاف بغاوت کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اسی باعث ارجنٹائن میں جی 20 کانفرنس میں شرکت کے غرض سے موجود ولی عہد محمد بن سلمان کو ہنگامی ایکشن لینا پڑا ہے۔ سعودی فرمانروا محمد بن سلمان کو اپنی غیر موجودگی میں باغی شہزادوں کی جانب سے بغاوت کیے جانے کا خدشہ ہے، اسی باعث انہوں نے ہنگامی حکم دے کر سعودی دارالحکومت ریاض کو اپنی وفادار فوج کے حوالے کر دیا ہے۔
سعودی فرمانروا کے حکم پر سعودی فوج کے دستے دارالحکومت ریاض میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ہنگامی اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب باغی شہزادے خالد بن فرحان السعود کی جانب سے سعودی فرمانروا اور ولی عہد کیخلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے انہیں اقتدار سے ہٹانے کا اعلان کیا گیا۔ باغی شہزادے خالد بن فرحان السعود نے شاہی خاندان میں سے اپوزیشن کو متحرک کرکے محمد بن سلمان کی حکومت کے خاتمے کا عندیہ دیا ہے۔
جرمنی میں موجود جلا وطن سعودی شہزادے کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کا انداز حکومت جاہلانہ اور متکبرانہ ہے اس لیے اس کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کیخلاف سعودی شاہی خاندان میں بننے والے باغی گروپ کی جانب سے متبادل قیادت کیلئے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے سوتیلے بھائی شہزادہ احمد بن عبد العزیز کا نام لیا جا رہا ہے۔
76 سالہ احمد بن عبد العزیز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ انہیں سعودی شاہی خاندان کے باغی گروپ کی حمایت حاصل ہے، جبکہ وہ بھی بنیاد پرست ہونے کی بجائے اصلاح پرست رہنما کے طور پر مشہور ہیں۔ اگر انہیں اقتدار ملتا ہے تو وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کا جاری رکھیں گے۔ جبکہ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ان تمام واقعات کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔
سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ممکنہ کردار ہونے کے باعث سعودی ولی عہد محمد بن سلمان شدید دباو میں ہیں۔ ایسے میں ارجنٹائن میں جاری جی 20 کانفرنس کے دوران انہیں اپنے دوست مغربی ممالک کی حمایت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ان کیخلاف بغاوت کا راستہ مزید آسان ہو جائے گا۔ اسی لیے جرمنی میں موجود باغی شہزادے خالد بن فرحان السعود نے فوری متحرک ہو کر سعودی عرب میں بغاوت کروانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد اور شہزادے محمد بن سلمان نے تیزی سے شاہی خاندان کی تمام طاقت اپنی ذات کے اندر مرکوز کرنا شروع کر دی ہے، جس کی وجہ سے خود شاہی خاندان، تجارتی طبقے اور مذہبی علما کی جانب سے ان کی مخالفت کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے۔ جمال خاشقجی کے واقعے کے بعد شاہی خاندان کی جانب سے نوجوان ولی عہد کی مخالفت بڑھتی چلی جائے گی۔
السعود خاندان کے اندر بعض عناصر کو یقین ہے کہ شہزادہ اندھا دھند فیصلے کرتا ہے جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سعودی شاہی خاندان میں بغاوت کی افواہیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور یہ اطلاعات بھی ملی تھیں کہ محد بن سلمان ایک مبینہ حملے میں زخمی ہوگئے تھے۔ اس خبر کے بعد محمد بن سلمان کئی ہفتے تک منظر عام سے غائب رہے تھے اور اس حوالے سے کوئی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ سرکاری طور پر 82 سالہ شاہ سلمان اپنا ولی عہد بدل سکتے ہیں، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے امکانات کم ہیں۔ دوسری جانب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی کسی بھی ممکنہ بغاوت کر کچلنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنی وفادار فوج کو دارالحکومت ریاض کا کنٹرول سونپ دیا ہے۔
