16 دسمبر 1971ءکا دن جب بے شمار قربانیوں اور کئی دہائیوں کی تحریک کے بعد حاصل کیا ہوا ملک دولخت کردیا گیا۔ بے شمار عوامل اس کے ذمہ دار ٹہرے۔ سیاستدانوں کی ہوس اقتدار، مشرقی حصے کے لوگوں کا احساس محرومی، بھارت کی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کے نظریہ کے ساتھ دخل اندازی، امن کی جاری کوششیں اور فوجی اداروں یا اسٹیبلشمنٹ کی چشم پوشی، پاکستان میں آمریت، سیاسی نا اہلی اور ناعاقبت اندیشی، آج تک یہ عقدہ ہی نہیں کھل پایا کہ ملک توڑنے کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔ سیاسی کھلاڑیوں کو یا غیر ذمہ دار فوجی اداروں کو۔ حقیقت تو کسی نہ کسی طور تاریخ کے صفات میں رقم ہو ہی جاتی ہے مگر اس سلسلے میں دانشوروں نے اور ذرائع ابلاغ نے بھی اپنا کردار ادا کیا، کچھ حقیقت اور کچھ داستان گوئی کی مد میں اور کچھ فرمائشی کہانیاں بھی احاطہ تحریر میں آئیں۔ جو کچھ بھی ہو جناح کا پاکستان صرف 25 سال کی عمر میں سانحہ کے شکار ہو کر دولخت ہو گیا۔
1947ءمیں وجود میں آنے والے پاکستان میں جو علاقے شامل کئے گئے وہ ایک دوسرے سے 1600 کلو میٹر کے فاصلے پر تھے، وہ علاقہ جو ہندوستان کے بنگال سے تقسیم ہو کر پاکستان کے حصے میں آیا وہ ابتداءمیں مشرقی بنگال ہی کہلایا اور دوسرا حصہ جو مغربی پاکستان کہلایا وہ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور سرحدی علاقوں پر مشتمل تھا۔ مشرقی بنگال متحدہ پاکستان کا کثیر آبادی والا حصہ تھا۔ اس میں پاکستان کی 55 فیصد آبادی مقیم تھی۔ دونوں حصوں میں بلاشبہ معاشرتی اور لسانی تفریق موجود تھی مگر اسلامی ملک کے نام پر بننے والے پاکستان کی تحریک میں بنگال ابتداءہی سے بھرپور طریقہ سے شامل سفر رہا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے قائم ہوتے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت بھی دونوں صوبوں کے درمیان شگاف پڑنے کی ایک اہم وجہ رہی۔ قائد اعظم کی حیات میں ہی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے اشارے ملنے لگے تھے۔ قائد اعظم نے ایو خان کو اسی وجہ سے مغربی پاکستان سے مشرقی بنگال روانہ کیا تھا کہ وہ اپنی فوجی ذمہ داریوں کے برعکس سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ بیوروکریسی کے جو افسران مشرقی بنگال بھیجے گئے ان کا رویہ بنگالیوں کے ساتھ حاکمانہ رہا اور وہ انہیں اپنی رعیت سمجھتے رہے۔ اس نے بنگالیوں کے اندر منفی احساسات کو جنم دیا۔ اس کے علاوہ جب متحدہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں اردو کے ساتھ بنگالی کے استعمال کو اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی طرف سے رد کیا گیا اور جب بعدازاق مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ خواجہ ناظم الدین نے بھی اردو کو قومی زبان بنانے کی تجویز سے اتفاق کرلیا تو مشرقی صوبے میں اس کے خلاف انتہائی ردعمل سامنے آیا جب کہ یہ مسئلہ اس سے قبل قائد اعظم کی ڈھاکہ میں تقریر کے دوران اردو کو قومی زبان بنانے کا عندیہ دینے پر سر اٹھا چکا تھا۔ اس وقت مشرقی بنگال میں علمی درسگاہوں میں ایسے ہندو اساتذہ کی کثیر تعداد ہنوز موجود تھی جو طالب علموں کو پاکستان کے وجود سے منحرف کرنے کی بھارتی سازشوں میں معاون تھے۔ مغربی پاکستان نے بھارتیوں کارروائیوں پر عرصہ دراز تک چشم پوشی قائم رکھی جس کا فائدہ پاکستان دشمنوں نے بھرپور طریقہ سے اٹھایا۔
عام طور پر 1970ءکے انتخابات کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اہم ترین محرک سمجھا جاتا ہے مگر حقیقتاً اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ و واقعات ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے جب کہ اس وقت مشرقی بنگال کے تین اہم بڑے رہنما خواجہ ناظم الدین، مولوی فضل الرحق اور حسین شہید سہروردی تھے۔ خواجہ ناظم الدین کو جلد ہی مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جب کہ مولوی فضل الحق کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے اس لئے فارغ کردیا گیا کہ بھارت سے سازباز کا الزام ان پر لگایا گیا۔ وہ بھارت سے امن کے خواہاں تھے۔ سہروردی دونوں حصوں کے درمیان مفاہمتی طرز عمل پر کاربند رہے اور پاکستان کے 25 ویں وزیراعظم بن گئے مگر 1957ءمیں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مجبور کیا گیا وہ استعفیٰ دیدیں۔ یہ تمام عوامل مشرقی بنگال پر بے حد اثرانداز ہوئے اور بنگالیوں میں یہ تاثر شدت پکڑنے لگا کہ ان کا مغربی بازو انہیں کم حیثیت سمجھتا ہے۔
مشرقی بنگال کی آبادی کی کثیر تعداد کو مغربی حصہ کی آبادی سے برابر رکھنے کے لئے ون یونٹ کی تجویز دی گئی۔ 1954ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے اسے قومی اسمبلی سے منظور کروایا اور 4 اکتوبر 1955ءمیں اسے چوہدری محمد علی نے نافذ کردیا۔ اس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ختم کرکے ایک اکائی کی صورت دیدی گئی اور دوسری جانب کو مشرقی بنگال کے بجائے مشرقی پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس وقت اعلان یہ ہوا کہ انتظامی امور کو موثر طور پر چلانے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے مگر بعدازاں واضح یہ ہوا کہ تمام اضلاع اور ریاستوں کو ختم کرنے کی وجہ مشرقی پاکستان سے آبادی کی گنجائش کو بڑھانا تھا تاکہ حکومتی امور میں برتری حاصل ہوسکے۔
1956ءمیں پہلا آئین منظور ہوا اور انتخابات کروانے کے بجائے 1958ءمیں مارشل لاءلگا دیا گیا اور مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیا۔ وہ پہلے ہی لسانی احتجاج کی وجہ سے قید بھگت چکے تھے اور فوج کے خلاف مزاحمت کرنے پر بھی انہیں گرفتار کیا جا چکا تھا۔ شیخ مجیب اس وقت تک اپنا ایک مضبوط سیاسی مقام بنا چکے تھے۔ پاکستان کی تحریک لے کر انہیں ایک بنگالی لیڈر کے طور پر تسلیم کیا جا چکا تھا۔ صوبائی خودمختاری کی تحریک کے نکات میں بھی ان کا بھرپور کردار رہا تھا۔ 1949ءمیں قائم ہونے والی آل پاکستان عوامی مسلم لیگ جسے مولانا بھاشانی اور دیگر رہنماﺅں نے قائم کیا تھا تو عوامی لیگ کا درجہ دینے میں بھی مجیب الرحمن شامل رہے اور اس کے پہلے جنرل سیکریٹری تعینات ہوئے۔ 1964ءمیں ہونے والے انتخابات میں عوامی لیگ نے بھرپور طور پر فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نمائندوں کی اکثریت کے ووٹ حاصل کئے مگر مشرقی پاکستان میں وہ فاطمہ جناح سے ہار گئے۔ جنرل ایوب کی فاطمہ جناح کے خلاف دھاندلی نے بنگالیوں کو اور متنفر کیا۔
6 فروری 1966ءکو شیخ مجیب نے 6 نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا اور یہ واضح کیا کہ یہ سفارشات ملک کے دونوں حصوں کو ایک ہی سیاسی وحدت کے طور پر قائم رکھنے پر ہیں مگر ان نکات میں تجاویز یا مطالبہ پیش کئے گئے وہ پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے مسترد کردیئے گئے اور یہ تعین کیا گیا کہ شیخ مجیب پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ 1967ءمیں اگرتلہ کی سازش کے سلسلے میں گرفتاریاں شروع کی گئیں اور شیخ مجیب کو بھی اس مقدمے میں شامل کرلیا گیا جو پہلے ہی 6 نکاتی مقدمے میں گرفتار تھے۔ اس پورے مقدمے کی بنیاد یہ تھی کہ اس میں ملوث افراد نے بھارت سے آزادی کے لئے مدد طلب کی ہے جس بے ہنگم طریقے سے اس سارے معاملے کو اچھالا گیا اس نے بنگالی تحریک میں شدت کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ اگرتلہ سے رہا ہونے کے بعد مجیب نے یہ اعلان کیا کہ اب مشرقی پاکستان کو پاکستان کی 65 فیصد آبادی کے حساب سے نمائندگی ملنی چاہئے۔ 1970ءکے انتخابات نے عوامی لیگ کو اکثریتی جماعت کی حیثیت میں لاکھڑا کیا۔ عوامی لیگ نے 169 میں سے 167 نشستیں حاصل کیں جب کہ پیپلزپارٹی نے 135 میں سے 81 نشستیں لیں۔ عوامی لیگ نے مطالبہ کیا کہ حکومت اکثریتی جماعت کے حوالے کی جائے اور اسمبلی کا اجلاس 15 فروری کو بلایا جائے لیکن یہ تجویز رد کردی گئی پھر 3 مارچ کو اجلاس بلانے کی یقین دہانی کروائی گئی مگر یہ واضح کردیا گیا کہ 6 نکات پر بات نہیں کی جائے گی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ اجلاس ہوا تو پورا مغربی پاکستان جام کردیا گیا جائے گا۔ اجلاس ملتوی کرکے گول میز کانفرنس بلائی گئی۔ یہ سارے مراحل مشرقی پاکستان کے عوا کو یہ تاثر دیتے رہے کہ مغربی پاکستان کی سیاسی اور فوجی حکومت ان کو اقتدار نہیں دینا چاہتی جب کہ وہ اکثریتی جماعت ہیں۔ مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہو گئی، 25 مارچ کو پھر اجلاس بلایا گیا اور اس میں عوامی لیگ نے کچھ شرائط رکھیں۔ 25 مارچ کو بنگالیوں کے خلاف سرچ لائیٹ آپریشن شروع کردیا گیا اور اس کی ذمہ داری جرنل صاحبزادہ یعقوب خان کو سونپی گئی مگر وہ معذرت کرکے واپس مغربی پاکستان چلے گئے۔ سیاسی صورت حال کو سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے مغربی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے فوجی کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔ مجیب الرحمن نے اس موقع پر تمام سرکاری اور غیر سرکاری محکموں کو غیر معینہ مدت کے لئے بندش کا اعلان کردیا۔ فوجی آپریشن کے خوف سے بنگالی مکتی باہنی کے نام سے گوریلا فوج تیار کر چکے تھے۔ پاکستانی فوج اور مکتی باہنی برسرپیکار ہوئیں، وہ لوگ جو ایک ساتھ چل کر قربانیاں دے کر ایک ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کچھ بیمار ذہنوں کی بدولت آمنے سامنے کھڑے ہوئے۔ ایک انتہائی ہولناک داستان ہے مارچ سے لے کر دسمبر تک جو بنگالیوں اور غیر بنگالیوں پر گزری۔ جب مکتی باہنی پاکستانی فوج کا مقابلہ نہ کر پائی تو 21 نومبر 1971ءکو بھارت نے پوری قوت سے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کردیں۔ جنرل نیازی نے 16 دسمبر کو جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور پاکستان کی 93000 ترانوے ہزار قیدی جنگی قیدی کی قطار میں شامل ہو گئے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور حالات جاننے کے لئے بنایا گیا حمود الرحمن کمیشن نے جو واقعات اور گواہیاں قلمبند کی ہیں وہ انتہائی سفاکانہ اور تکلیف دہ ہیں۔ فوجی اور سول اختیارات کے جو ناجائز استعمال سامنے آتی ہیں، جو تفاصیل بیان کی گئی ہیں وہ کسی بھی قوم و ملک کے لئے انتہائی سنگین اور ہزیمیت کا باعث ہیں۔ قومیں اپنی تاریخ سے سیکھتی ہیں اور اپنی غلطیوں سے گریز کرتی ہیں مگر احساس یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔
147