کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 283

سندھ پولیس مسلم لیگ (ن) کی بی ٹیم۔۔۔ کیوں؟

سندھ پولیس کے سربراہ مشتاق مہر سے کئے جانے والے بدسلوکی کے واقعہ کے ذمہ داروں کے کلاف انکوائری کے نتیجے میں کی جانے والی کارروائی کے بعد سندھ پولیس کے 100 سے زائد اعلیٰ افسروں کے خلاف ممکنہ کارروائی کا عندیہ دیئے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے ان پولیس افسروں کے خلاف یہ کارروائی ان کی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے یکجہتی کے منصوبہ بندی کے ساتھ چھٹی کی درخواستیں دے کر بحران پیدا کرنے کے الزام میں کی جارہی ہے جس کے تحت وفاق کی روٹیشن پالیسی کے تحت ابتدائی فیز میں ان کا سندھ سے تبادلہ کردیا جائے گا اس کے بعد اس سارے بحران کے ماسٹر مائنڈ یعنی مرکزی کرداروں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے انہیں سخت ترین محکمہ جاتی کارروائیوں سے گزارا جائے گا۔
18 اکتوبر کو مزار قائد پر ایک ناخوشگوار واقعہ مسلم لیگ ن کے رہنما ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کے نعرے بازی کے نتیجے میں پیش آیا تھا جس کے بعد جو ایف آئی آر ان کے خلاف جس شخص نے درج کروائی تھی وہ بھی مقدمات کا مفرور نکلا اور اس طرح سے مزار قائد کی بے حرمتی کا سیدھا سادھا مقدمہ سیاسی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ مقدمہ کے اندراج میں غیر معمولی تاخیر کے نتیجے میں آئی جی سندھ کو بدسلوکی کے ایک ناخوشگوار واقعہ سے گزرنا پڑا جس کے بعد پوری سندھ پولیس ایک بحران میں مبتلا ہو گئی جس کا خاتمہ گزشتہ روز اس انکوائری کی رپورٹ کے عام ہونے پر ہوا جس میں اس واقعہ کے دو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرلی گئی اس کے بعد اب اس واقعہ کے ردعمل کے طور پر جو کچھ ہوا اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے بھی وفاق متحرک ہو گیا ہے اور ابتدائی طور پر وفاق نے روٹیشن پالیسی کے تحت ان سب کو سندھ بدر کرنے کے لئے ان افسروں کی فہرست فائنل کردی ہے اس سلسلے میں سندھ کی حکومت کو پہلے ہی آگاہ کردیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی مداخَت نہ کرے جو جس نے کیا ہے انہیں پولیس رولز اور ڈسپلن کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گزشتہ روز کی اس کارروائی سے سندھ پولیس کے افسروں میں ایک طرح سے بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور ان میں صف ماتم بچھ گیا ہے ہر کوئی اپنے اپنے طور پر خود اپنے جانب بڑھنے والی اس موت کو روکنے کے لئے اپنے اپنے اثر و رسوخ استعمال کررہا ہے جب کہ آئی جی سندھ کے بنگلے میں ان کے حلقہ احباب میں شامل پی ایس پی افسروں کا اجتماع معمول کے مطابق روزانہ رات دس بجے کے بعد سے لگنا شروع ہو جاتا ہے جہاں سب کے سب سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے ایک دوسرے سے مشورے کرتے رہتے ہیں۔ غرض ایک اچھی خاصی افراتفری پھیل گئی ہے جب کہ یہ کہا جارہا ہے کہ سندھ پولیس مسلم لیگ ن کے ہاتھوں ٹریپ ہو گئی اور مسلم لیگ ن نے ان سے ایک ایسا
غیر قانونی کام کروادیا کہ جس سے خود مسلم لیگ ن کے بیانیہ کو تقویت مل گئی اور اس سے ایک طرح سے حکومت کو بالخصوص اور اس کے پس پردہ کام کرنے والی قوتوں کو بالعموم جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا، اسی وجہ سے اب کراچی پولیس کے 100 سے زائد بڑے افسروں کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہے کہ انہوں نے آخر کس خوشی میں اپنا کاندھا مسلم لیگ ن کو اپنا نشانہ لگانے کے لئے پیش کیا۔ حکومت کے ملازم ہونے کے ناطے ان کی وفاداریاں حکومت اور اس کے اداروں کے ساتھ ہونی چاہئے تھی مگر بدقسمتی سے سیاست زدہ پولیس سیاسی رو میں بہہ گئی اور خود اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھدوانے کا باعث بن گئی جس کا سامنا اب خود انہیں ہی کرنا پڑ رہا ہے جب کہ دوسری جانب وفاق کو سندھ حکومت کی انکوائری کا انتظار ہے کہ وہ اپنی رپورٹ میں کس کو قصور وار ٹھہراتی ہے۔ سندھ حکومت کی رپورٹ کے بعد ہی وفاق سندھ کے ان تمام پولیس افسروں کے تبادلے کا نوٹی فکیشن وقفے وقفے سے جاری کرے گی جب کہ ان ہی پولیس افسروں کے گوشواروں کو حاصل کرنے کے بعد ان کے اثاثہ جات سے متعلق ایک الگ ٹیم پہلے ہی تحقیقات کررہی ہے جس میں کراچی کے زونل ڈی آئی جیز حیدرآباد لاڑکانہ اور میرپورخاص کے ڈی آئی جی بھی شامل ہیں یہ بھی معلوم کیا جارہا ہے کہ ان میں سے کتنے پی ایس پی افسران ایسے ہیں جن کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح سے مسلم لیگ ن کے ساتھ جا کر ملتے ہیں جب کہ اب یہ معلوم بھی کیا جارہا ہے کہ آخر مزار قائد پر آنے والے اس ناخوشگوار واقعہ پر مقدمہ درج نہ کروانے کا حکم پولیس کو کس نے دیا تھا۔۔۔؟
اگر تحقیقات کے دوران پولیس افسروں نے کسی وزیر یا کسی اور اہم حکومتی شخصیت کا نام لے لیا تو پھر اس کے خلاف بھی کارروائی شروع کئے جانے کا امکان ہے اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان اور قومی سلامتی کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ اس معاملے میں تاخیر سے کام نہ لیں جس طرح سے خیبرپختونخواہ میں آئی جی ثناءاللہ عباسی کو تبدیل کرکے وہاں میر خالقداد کو وہاں کا نیا آئی جی مقرر کردیا ہے بالکل اسی طرح سے صوبہ سندھ میں بھی جو کچھ کرنا ہے وہ فوری طور پر کریں اس معاملے کو زیادہ نہ لٹکائیں اس لئے کہ اس سے سندھ پولیس کے ڈسپلن کا شیرازہ تیزی سے بکھر رہا ہے جو جس نے کیا ہے اسے فوری طور پر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ پولیس کا مورال اپنیس طح پر آجائے اور آئندہ کسی کو اس طرح سے کسی سیاسی جماعت کی بی ٹیم بننے کی جرات اور ہمت نہ ہو، یہ ہی بدلتے ہوئے نئے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں