دائی حلیمہ جو میرے آقا کی ابتدائی پرورش کی سعادت مند تھی کہتی ہیں کہ ”میں اس بچہ کو گود میں لے کر جس طرف جاتی ایک بادل کا ٹکڑا ہمیں سایہ دیتا رہتا تھا“۔ یوں ان خوش نصیب ذات کو اس بچے سے بہت زیادہ انسیت اور محبت ہوگئی جب بھی ان کو یہ احساس ہو جاتا کہ وہ اس بچے سے دور ہو جائیں گی تو وہ کہتی کہ اس شدت افسوس سے میری آنکھوں کی نیند ا±ڑ جاتی کہ میں اکثر راتیں جاگ جاگ کر گزار دیتی کہ میں اس بچے کے بغیر کیسے رہ سکوں گی؟ بالاخر وہ دن بھی آگیا وہ بچے کو لیکر محسن انسانیت کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، دائی حلیمہ کی حالت دیکھ کر میرے آقاٍ کی والدہ نے دائی حلیمہ سے پوچھا کہ کیا تمہارا دل اس بچے کے ساتھ چھوڑنے کو نہیں چاہ رہا ہے تو تم چاہو تو کچھ دن اس بچے کو اپنے پاس رکھو تاکہ میرا بچہ تمہارا ساتھ مزید رہ کر پرورش کرلے۔ حضرت آمنہ نے اپنے جگر گوشہ کی نگہداشت کی خاطر اور دائی حلیمہ کے جذبات و احساسات کا اندازہ لگا کر اس ہستی نے اپنے سینے پر پتھر باندھ کر اس عرصہ جدائی کو سہنے کا فیصلہ کیا۔ یوں دائی حلیمہ خوشی خوشی میرے آقا کو واپس اپنے قبیلہ لے گئی جہاں تھوڑے دن بعد جب طاعون کی وبا پھیلی تو پھر انہوں نے اپنی محبت کو اور تمناﺅں کو بچے کی خیروعافیت پر ترجیع نہ دی اور بچے کو دوبارہ حضرت آمنہ کی خدمت میں لیکر حاصر ہو گئیں کیونکہ اللہ کی یہ مصلحت تھی کہ بچہ اپنی جنم دینے والی ماں کے پاس باقی عرصہ ان کے ساتھ ہی گزارے۔ اس طرح حضرت آمنہ نے بھی اس بچے کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے بھی دور ہو گئیں۔ ان سچی ہستیوں کا ذکر کرنے کے بعد میں ایک سچی ماں کی کہانی بھی سناﺅں گا۔ مگر اس پرانی کہانیسے پہلے اپنی زندگی تجبرات اور علم کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو کہ پرانے ضرور ہو گئے ہیں، میرے شعور میں اضافے کا باعث ہوئے۔
نواز شریف اب تقریباً ساٹھ کی دہائی کی عمر کے ہو گئے، وہ تقریباً ستر سال کے ہونے کے ساتھ دل کے مریض ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ہی سال اپنی شریک زندگی سے بھی محروم ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ اندر سے مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس عمر میں جب عموماً لوگ نانا دادا بن کر اپنے بچوں کے ساتھ زندگی کا آخری حصہ گزارتے ہیں۔ نواز شریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جو کہ ان کی اڑسٹھ سالہ زندگی کا انوکھا تجربہ ہے اس سے پہلے انہوں نے اپنی زندگی کو بڑے شاہانہ انداز میں گزارا۔ ان کی ایک ابرو چشم پر بڑی سے بڑی خواہشات پوری ہو جاتی۔ آخری عمر میں انہوں نے نظام کو تبدیل کرنے کا نعرہ بلند کیا، اداروں کو یہ نعرہ پسند نہیں آیا۔ ان کا سب سے بڑا مخالف عمران خان ملک کا حکمران بنا دیا گیا۔ جو اس بات کی ضد پر قائم ہے کہ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا۔ ایک طرف عمران خان کی ضد کہ اس شخص نے اپنے خاندان کو نوازنے کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کو بے پناہ نوازا اور ملک کے خزانے کو بے پناہ نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے ملک بدحالی کے سمندر میں ڈبکیاں لگا رہا ہے اس کا ذمہ دار وہ براہ راست ان دونوں بھائیوں کو سمجھتا ہے اگر دیکھا جائے تو اس وقت سب سے زیادہ نا اہل کرپٹ لوگ خود اس کے گرد جمع ہیں جب کہ نواز شریف کے پاس بہت سے اہل لوگ بھی تھے مگر ساتھ ساتھ ان پر کرپشن کے بھی الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کی مجبور یہ ہی ہے کہ وہ الیکٹ ایبل اور نا اہل افراد کو اپنے ساتھ ملا کر انتخابات میں کامیاب ہو کر اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہو سکے اب ان کے پاس اقتدار کی منزل کے ساتھ ساتھ قوت بھی حاصل ہو گئی ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ احتساب اپنے اطراف سے شروع کریں جس جس طرح نوازشریف کو عروج سے زوال تک کی منزل تک پہنچایا ہے اس ہی طرح وہ خود کو بھی احتساب کے لئے پیش کریں۔ وہ بدعنوان لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر شفاف احتساب کو لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں بنا سکتے۔
عمران خان کا ایک سب سے بڑا مقصد تو یہ ہ حاصل ہو گیا کہ نواز شریف کو ان کے عروج میں وزارت عظمیٰ سے فارغ کروا کر ساری زندگی کے لئے نا اہل کروا دیا۔ پھ ران کو کرپشن کے الزامات کے تحت سپریم کورٹ سے ساری زندگی کے لئے نا اہل قرار دے دیا جس کی پاداش میں اب انہیں جیل کی کوٹھریوں میں بقیہ زندگی گزارنی ہو گی اس کو کہتے ہیں مکافات عمل۔ جس کے لئے ہر حکمران کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ جنرل مشرف جیسا فوجی حکمران جس کے پچیھے اس کا پورا ادارہ کھڑا ہے مختلف مقدمات میں پاکستان کی عدالتوں میں دھکے کھانے کے بعد آج وطن سے دور کسی ہسپتال کے بستر پر لیٹا بیماریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی عدالتوں سے مختلف مقدمات کے سامنے پیش ہونے کے کورٹ کے نوٹس وصول کررہا ہے۔
آصف زرداری جس کے پیچھے بھٹو خاندان کے ساتھ ساتھ اس کی پوری پارٹی موجود ہے وہ بھی ایک طویل عرصہ جیل میں گزارنے کے باوجود اب بھی پاکستان کی مختلف عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔ یہ ہی سب کچھ دوسرے حکمرانوں کے ساتھ بھی پیش ہوسکتا ہے۔ عمران خان اس سے مبرا نہیں ہے اس لئے عمران خان کو بھی اس طرح کے حالات کے لئے تیار رہنا چاہئے اس کا تدارک بھی اس طرح سے ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے ایسے ہی سلوک کا مرتکب ہو جیسا کہ بعد میں اس کو بھی سامنا کرتے ہوئے اس طرح کے حالات نہ درپیش ہوں جیسا کہ اب نواز شریف، پرویز مشرف اور آصف زرداری کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ اب ایک طرف عمران خان کا موقف ہے۔ دوسری طرف نواز شریف۔
مجھے ان حالات میں بچپن کی ایک کہانی یاد آرہی ہے جو ہماری جیسی مائیں اپنے بچوں کو اکثر سناتی ہیں۔ یہ کہانی بھی ماں کی ہے۔
ایک نوزائدہ معصوم بچے کو دوسری عورت نے پالا پوسا اس کی خدمت کی اور یوں وہ بچہ جوان ہونا شروع ہوا اور جب کمانے کے لائق ہوا تو اس کی جنم دینے والی ماں آگئی اور مطالبہ کرنے لگی اس بچے کو اب جو جوان ہو گیا تھا اس کے حوالے کیا جائے، پرورش دینے ماں نے کہا کہ بچہ میرا ہے، میں نے اس کی خدمت کی ہے، پرورش کی، پالا پوسا ہے، تم تو اس کو چھوڑ گئی تھیں، جبکہ جنم دینے والی ماں کا اصرار تھا کہ میں نے اس بچے کو جنم دیا ہے، میں ہی اس کی حقیقی ماں ہوں، یہ بچی میرے حوالے کیا جائے۔ جب یہ تکرار بڑھ گئی تو معاملہ قاضی کی عدالت میں چلا گیا۔ قاضی نے دونوں ماﺅں کا موقف سنا، دونوں کے دلائل سنے، دونوں ہی کا برابر کا حق بن رہا تھا، ایک ماں نے جنم دیا، یا دوسری نے پرورش کی، دونوں ہی حق دار تصور ہوتی تھیں۔
قاضی نے معاملہ سلجھانے کے لئے جو ابتدائی فیصلہ سنایا تو اس فیصلے کو سن کر تمام لوگ حیران ہو گئے۔ فیصلہ یہ تھا کہ کیوں کے اس بچے پر جنم دینے والی کا حق تھا تو پرورش دینے والی ماں کا بھی اتنا ہی حق تھا، اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ بچے کو دو حصے کرکے ان دونوں ماﺅں میں برابر تقسیم کر دیا جائے، جب جلاد تلوار سے اس بچے کے دو حصے کرنے والا تھا تو ایک ماں نے تڑپ کر کہا کہ اس کے دو حصے نہ کرو، میں اپنے حصے سے دستبردار ہوتی ہوں، جس ماں نے اپنے حق سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا، قاضی نے اس بچے کو اسی سچی ماں کے حوالے کر دیا۔ یہ تھا اصل فیصلہ جو قاضی کا تھا۔ آج کے حالات میں عمران خان کا موقف ایک ماں کی طرح ہے تو نواز شریف کا موقف دوسری ماں کی طرح۔ ایمپائر قاضی ہے یا پاکستان کے عوام وہ اس سچے فیصلہ کی منتظر ہیں جو دو میں سے
ایک ماں کے دستبرداری کے فیصلہ کی منتظر ہے۔ نواز شریف انتہائی تشویش زدہ خرابی صحت کا شکار ہیں۔ ان کے ماضی کو نظر انداز کرکے ان کے صحت مند ہونے کی دعائیں دنیا بھر میں کی جارہی ہیں۔ اس ہی طرح آصف زرداری بھی خرابی صحت کا شکار ہیں۔ ان دونوں حضرات نے پچھلے کچھ عرصہ سے کافی مشکل وقت گزار دیا ہے۔ اب اگر کسی بھی طرح کی ڈیل کرکے ان کو رہائی مل جاتی ہے تو یہ نہ صرف اس مشکل دور میں ایک بہتر فیصلہ ثابت ہو گا جو ملک اور قوم کے لئے اور ساتھ ملک کے ہر ادارے کے مفاد میں بہترین فیصلہ ثابت ہوگا۔ اس وقت ملک میں فوج، عدالت اور سیاستدانوں کا کردار کھل کا سب کے سامنے آچکا ہے۔ اب ان سب فریقین کو ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر تعاون کی نئی جہد کا آغاز کریا جانا چاہئے کیونکہ ان سب کی ہی غلطیوں سے پاکستان اس مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔
531