نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 308

سیاست کرپشن اور دہشت گردی

وہی ہوا جس کا ڈر تھا، جب کوئی بے لگام ہو جائے یا کسی کو کھلی چھوٹ دے دی جائے ت وپھر وہ وہی کرے گا جو ان دنوں لندن میں مقیم میاں صاحب کررہے ہیں۔ میرے خیال میں تو میاں صاحب زرداری اور مولانا صاحب سب کے سب اپنی اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس طرح کی جنگ میں ہمیشہ اسی کی جیت ہوتی ہے جو بقاءکی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے جس کی زندہ مثالیں ہمارے معاشرے میں ڈاکوﺅں کے یا دہشت گردوں کے پولیس سے کئے جانے والے مقابلے ہیں جس میں زیادہ کامیابیاں ہمیشہ ڈاکوﺅں اور دہشت گردوں کو ہی ملتی ہیں اس لئے کہ وہ اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں اسی لئے میں کہہ رہا ہوں کہ ہماری سیاست کے کرپشن اور اس میں شامل جرائم کا ڈراپ سین ہونے جارہا ہے۔ ٹرانسپرینسی کی وجہ سے چیزیں پوری طرح سے بے نقاب ہوتی جارہی ہیں اس وجہ سے اب کسی کا بھی راز راز نہیں رہتا، نہ کوئی اب تو کوئی جمہوریت کو خطرے کے پیچھے پناہ لے سکتا ہے اور نہ ہی اسلام کو خطرہ ہے کا کوئی نعرہ لگا کستا ہے سب کے سب ایک اس طرح کے دوراہے پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے کسی ایک راہ کا انتخاب کرنا ہے اسی وجہ سے سب کے سب مل کر اب شور مچا رہے ہیں سب کا دکھ سب کی بیماری ایک ہیہے اسی لئے سب مل کر عمران خان کی اس حکومت کے لئے تحریک چلانے کی دھمکی دے رہے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں جب کہ میڈیا کا ایک بڑا گروپ بھی حکومتی مخالفت کی وجہ سے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے رائی کو پہاڑ بنانے میں اپنی ساری صلاحیتیں صرف کررہا ہے جو سیاسی
جماعتیں اس وقت یک زبان ہو کر حکومت کو گرانے یا ہٹانے کے لئے سرگرداں ہیں وہ سب کی سب نیب زدہ یعنی کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہیں ان سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان سے اس کرپشن کے متعلق کچھ نہ پوچھا جائے بلکہ چوہدری شجاعت حسین کے مشہور زمانہ جملے کے مطابق کہ ”مٹی پاﺅ“ والے فارمولے پر چلا جائے، دوسرے معنوں میں وہ حکومت سے این آر او یعنی عام معافی برائے کرپشن مقدمات مانگ رہے ہیں اسی وجہ سے وہ حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں کہ اگر حکومت نے ان کی یہ بات یا یہ اجتماعی مطالبہ نہیں مانا تو پھر حکومت دمادم مست قلندر کے لئے تیار ہو جائے اس سارے تحریک میں میاں صاحب اور مولانا سرگرمی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جب کہ زرداری کا کردار خاموش تماشائی والا بن گیا ہے وہ بھی اس تحریک کا حصہ ضرور ہیں لیکن جیسے ہی انہیں کسی جگہ سے کوئی اشارہ ہوا تو وہ پتلی گلی سے ضرور نکل جائیں گے۔ یہ ہی ان کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے جس سے مولانا اور میاں صاحب بھی اچھی طرح سے واقف ہیں لیکن اس وقت سب کی گوٹ پھنسی ہوئی ہے اسی وجہ سے ہر ایک کو دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہے اس لئے وہ ایک دوسرے کو ساتھ ملا کر اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں کہ بات بن جائے اور ان کا مسئلہ حل ہو جائے لیکن اس ساری صورتحال میں باہر بیٹھا شخص ہی اس وقت حکومت کے لئے بالخصوص اور ریاست پاکستان
کے لئے بالعموم ایک خطرہ بنا ہوا ہے اس لئے کہ وہ با آسانی ملک دشمنوں کے چالوں کا شکار ہو رہا ہے ایسا کہنا پاکستان کے وزارت خارجہ کے ذمہ داروں کا ہے جب کہ وزیر اعظم کے ایک ترجمان تو مریم نواز کی کسی انڈین خفیہ تنظیم ”را“ کے جاسوس سے ملاقات کرنے کا الزام لگا چکے ہیں لیکن کچھ تو ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور ویسے بھی میاں برادران کا ٹریک ریکارڈ اس سلسلے میں کچھ اچھا نہیں۔ ان کے بھارتی بزنس ٹائیکون جندال کے ساتھ گہرے مراسم و روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اسی وجہ سے اس طرح کے الزامات اگر کسی اور پاکستانی سیاستدان پر لگے تو اس میں صداقت ہو یا نہ ہو لیکن میاں برادران کے کسی پالتو کتے پر بھی یہ الزام لگ جائے تو سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اس لئے کہ اس خبر یا اطلاع میں کسی نہ کسی حد تک صداقت ضرور ہوتی ہے جس پر اب ملکی عوام کو بھی آہستہ آہستہ سے یقین آنا شروع ہو گیا ہے اس وجہ سے حکومت کے خلاف بننے والے اس نئے اتحاد میں شامل میاں صاحب کی وجہ سے اتحاد کا ریموٹ کنٹرول اب بالواسطہ یا براہ راست طور پر ملک دشمنوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو اب اس اتحاد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو کم اور ریاست پاکستان اور اس کے سلامتی کے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچائیں گے جس کی وجہ سے اب پاکستان کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں بہت زیادہ الرٹ اور چوکس ہو چکی ہیں اس لئے کہ اب اس متحدہ اپوزیشن کے کسی بھی احتجاجی، مظاہرے یا جلسہ جلوس کے موقع پر بھارتی تخریب کار ایجنسی ”را“ کی جانب سے دہشت گردی کروانے کا خدشہ ہے اسی طرح سے بلوچستان میں لبریشن آرمی اور فاٹا کے علاقے میں پی ٹی ایم کے ذریعے دہشت گردی کروانے، خاص طور سے سیکیورٹی فورسز پر حملہ کروانے کی کوششیں تیز کردی جائیں گی۔ ان خدشات کے پیش نظر ملک کے تمام حساس ادارے الرٹ ہو گئے ہیں تاکہ ان ملک دشمنوں کی تمام ارادوں کو ناکام بنایا جا سکے جو خود ہمارے اپنے دوست نما دشمنوں کا کاندھا استعمال کررہے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو چاہئے کہ وہ سمجھ داری سے کام لیں اس طرح کے اقدامات سے گریز کریں کہ جس سے کسی چھوٹے مقصد کو پانے کے لئے بڑا نقصان نہ اٹھانا پڑے، قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ قانون کی حکمرانی بھی ہونی چاہئے لیکن ملک کی سلامتی ہر معاملے پر مقدم ہی خیال کرنی چاہئے اس وقت معاملہ ملک کی سلامتی کا ہے اور دشمن نے خود ملکی سیاستدانوں کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے اس لئے حکومت کو اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں