بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 634

سیاسی آنکھ مچولی

ملک میں سیاسی آنکھ مچولی شروع ہو چکی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی حکومت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ کیوں کہ ناکامی اور نا تجربہ کاری کے باعث ملک کے حالات دن بدن نہایت مخدوش ہوتے جارہے ہیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس ناکامی کی وجہ کیا ہے؟ یقیناً نئی حکومت اتنی تجربہ کار نہیں کہ پرانی حکومتوں کی طرح معاملات حل کر سکے کیوں کہ کئی دہائیوں سے نواز شریف اور زرداری پارٹی نے اپنی جڑیں بیوروکریسی میں مضبوط کرلی ہیں۔ اور میڈیا کے بڑے بڑے کردار بھی ان کی مٹھی میں ہیں۔ دوسری جانب موجودہ حکومت کے اخبارات اور ٹی وی چینل کے اشتہارات پر پابندی لگانے سے بھی حکومت کے خلاف ایک خاموش ناراضگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کہ حالات درست ہوں اور ملک ترقی کرے۔ خواہ کوئی بھی پاکستانی میڈیا سے ہو، کاروباری ہو، حکومت سے ہو، اپنے پیٹ پر لات لگتے برداشت نہیں کر سکتا۔ کسی کو ملک کے لئے قربان ہونے کا کوئی شوق نہیں۔ اب تو پاکستانی فوج نے بھی پاکستان کے ملاﺅں کو اپنی بی ٹیم بنا کر خود کو قربانی سے بچا لیا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی رخصتی کا وقت قریب آتے آتے تمام بند زبانیں اچانک بولنا شروع ہو گئی ہیں۔ فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملات سے نمٹنے کے لئے بھی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ اور پی پی پی نے اتحاد کر لیا ہے اور بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری نے بھی اپنے حالیہ بیان میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ نیب کے چیئرمین کو پارلیمنٹ میں آنا چاہئے۔ یعنی کوتوال کا حساب چور کرے گا۔ ناجانے ہمارے خفیہ ہاتھ کونسی پالیسی کے تحت یہ سب کچھ کرتے ہیں، اے کاش کہ یہ ان ملک کے لٹیروں کو چائنا کی طرح روڈ پر کھڑا کرکے گولی مار دیتے اور عدالت تک بات ہی نہ جاتی۔ حال ہی میں چائنا نے اپنے تمام شہریوں کے کریڈٹ ریکارڈ طلب کرلئے ہیں۔ اور جن لوگوں نے مالی بدعنوانی کی ہے۔ حتیٰ کہ اگر بجلی یا گیس کے بل ادا نہیں کئے۔ تو وہ نہ تو فلیٹ بک کرا سکتے ہیں اور نہ ہی ملک سے باہر جا سکتے ہیں۔ یوں چائنا کے تمام ڈیفالٹر مشکلات میں آ چکے ہیں۔ اور حکومت نے ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں تو احتساب کے نام پر تو ہمیشہ مذاق کیا جاتا ہے۔ اور اس بار عوام پُر اُمید تھے کہ عمران خان کی حکومت نہایت مضبوطی سے ان چوروں اور لٹیروں پر ہاتھ ڈال کر ملک کو معاشی بدحالی سے باہر نکالے گی۔ مگر افسوسناک بات ہے کہ مستقبل میں پورا منظر تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت کچھ معاملات میں سمجھوتا کرنا پڑے گا۔ وگرنہ کوئی وجہ نہیں امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی شٹ ڈاﺅن ہو جائے۔ بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ انسان کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالی کی اپنی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ ملک کو کس رُخ پر لے کر جاتا ہے۔ کہ آج کا پاکستان دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان سے کس طرح اپنا دامن بچاتا ہے۔ آج کے پاکستان پر دنیا بھر کی نظریں ہیں اور امکان ہے کہ آئندہ ہونے والی جنگ بھی پاکستان کے لئے لڑی جائے۔ اور جس کے نتیجے میں پاکستان کی نئی صورت حال کیا بنے گی یہ تو مالک کُل ہی جانتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے عوام گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ مگر آج بھی قوم نہ بن سکے۔ خطرات سے بے خبر آج بھی قوم کو سندھی، بلوچی، پنجابی، بلوچی اور مہاجر میں بانٹا ہوا ہے۔ اور سیاسی بازی گر اپنا کھیل کامیابی سے کھیل رہے ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ عوام کے درمیان یہی تفریق کہیں ان کے گھروں کو ان کا مقتل نہ بنا دے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں