عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 299

سیاسی تعفن

جب کسی سیاسی اور وہ بھی مذہبی جماعت سے نظریاتی ساتھیوں یا ورکروں کا اختلاف کے بعد انخلاءکا سلسلہ شروع ہو جائے تو سمجھ لو کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ بہت ہی گمبھیر ہے اور کوئی انتہائی سنگین غلطی کی گئی ہے یا پھر اپنا پورے کا پورا نصب العین ہی تبدیل کردیا گیا ہے۔ جی ہاں میرا اشارہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی جماعت کی جانب ہے جس میں بدقسمتی سے اس وقت ایک بہت بڑا شگاف پڑ گیا ہے یہ اتنا بڑا شگاف ہے کہ اس کا بھرنا اب مولانا کی ذومعنی گفتگو سے نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو گا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا خان شیرانی کا یہ بیان بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے مولانا فضل الرحمن کا اصل چہرہ ملکی عوام کو دکھلایا ہے۔ مولانا خان شیرانی کا کہنا ہے کہ ”مولانا فضل الرحمن خود سلیکٹڈ ہیں وہ کسی کو طعنہ کیسے دے سکتے ہیں، حافظ حسین احمد ہمارا پرانا اور عقلمند ساتھی ہے ہم سب کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اگلے پانچ سال بھی پورے کریں گے۔ پی ڈی ایم ذاتی مفادات کے لئے قائم ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم والے مخاصمت کے لئے نہیں بلکہ مفاہمت کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا شیرانی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن خود سلیکٹڈ ہیں تو وہ عمران خان کو کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ سلیکٹڈ ہیں، میرا ماننا ہے کہ یہ پارٹی کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، اگر کوئی ایسا سوچ رہا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ان کا کہنا ہے میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے بلوچستان کے تمام اضلاع میں پارٹی کے دفاتر قائم کروں گا۔ مولانا کا کہنا ہے کہ میں نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران خان نہ صرف اپنے پانچ سال مکمل کرے گا بلکہ آنے والے پانچ سال بھی عمران خان کے ہی ہوں گے۔
اسی طرح سے جمعیت علمائے اسلام ف کے ایک اور باغی رہنما سابق صوبائی جنرل سیکریٹری شجاع ملک کا یہ بیان بھی قابل غور ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم والے قوم کے لئے نہیں نیب کی وجہ سے نکلے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہر کارکن کے ذہن میں یہ بات واضح ہے کہ پارٹی کی رکنیت اور تنظیم سازی میں خیانت ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم والے قوم کے لئے نہیں بلکہ نیب کی وجہ سے نکلے ہیں۔ شجاع ملک کی نئی ویڈیو سامنے آگئی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ عام کارکن نے بھی پارٹی کے اندر ہر صورت میں اصلاح کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حافظ حسین احمد نے مسلم لیگ ن کے بیانیے پر
تحفظات ظاہر کئے تو ان کو فارغ کر دیا گیا۔ حافظ حسین احمد کو فارغ کرکے زیادتی کی گئی۔ شجاع ملک کا کہنا ہے کہ حافظ حسین احمد مجلس عاملہ کے رکن تھے ان کی رائے کو سمجھنا چاہئے تھا۔ لوگ پی ڈی ایم میں کم آرہے ہیں کہ کسی پارٹی کے اندر جمہوریت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم والے قوم کے لئے نہیں نکلے۔ لوگ اس لئے بھی نہیں نکلتے کہ یہ نیب کی وجہ سے نکلے ہیں ان بہانوں سے تو یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ جے یو آئی ایف میں پوری طرح سے بغاوت ہو چکی ہے اور خود مولانا فضل الرحمن کی قیادت یا پھر ان کی امیری خطرے میں پڑ گئی ہے اور اب تو خود ان کی اپنی جماعت کے اندر سے بھی وہی آواز اٹھنا شروع ہو چکی ہے جو آواز ایک عرصے سے خود عمران خان اور ان کی جماعت لگاتی ہوئی آرہی ہے، دیر آئے درست آئے کے مصداق دیر سے جمعیت علمائے اسلام ف والوں کی آنکھیں کھل گئی مگر شکر ہے کہ کھل گئی اور انہیں معلوم تو ہوا کہ ان کا قائد کس طرح سے مذہب کے نام پر قائم کی جانے والی اس پارٹی کو اپنے خاندان والوں کی کرپشن کو بچانے کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ جماعت سے بغاوت کرنے والوں کا متفقہ طور پر یہ ہی کہنا ہے کہ پی ڈی ایم والے قوم کے لئے نہیں بلکہ نیب کے لئے نکلے ہیں جب کہ حافظ حسین احمد جیسے پارٹی کے سینئر رہنما کو محض مسلم لیگ ن کے بیانیے سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے پارٹی سے نکالنا پارٹی میں آمریت اور ایک ہی خاندان کے پارٹی پر مسلط ہونے کی نشاندہی کررہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف، مولانا فضل الرحمن کی ذاتی جاگیر ہے جس میں حافظ حسین احمد یا مولانا شیرانی اور شجاع ملک جیسے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں اس لئے ان کی آراءیا ان کی مخالفت کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام میں ہونے والی اس بغاوت سے پی ڈی ایم خطرے میں پڑ گئی ہے جب کہ پی پی پی پہلے ہی پی ڈی ایم سے الگ ہونے کے لئے پَر تول رہی ہے۔
عمران خان کو چاہئے کہ وہ ملکی عوام کو مہنگائی کی زد سے نکالنے کے لئے اہم اقدامات کریں۔ ملکی عوام کو ریلیف دینے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ پی ڈی ایم کو ملکی عوام کو ورغلانے کا موقع نہ مل سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں