اکثر ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے ایسی بھاری تلخیاں سامنے آجاتی ہیں کہ گفتگو چاہتے ہوئے بھی انتہائی ناخوشگوار ہوجاتی ہے ایسی حقیقتیں سامنے آتی ہیں جو شاید دوسروں کیلئے کوئی عام سی روزمرہ کہانی ہوں جو ادھر ادھر اکثر بنتی اور مٹتی رہتی ہیں پھر وہی بات کہ اس تیز رفتار زندگی میں پتہ بھی نہیں چلتا کب کیا ہوا کس کا کتنا نقصان ہوا اور کسی کے نقصان سے کسی کی اخلاقیات کس طرح کھل کے سامنے آئیں۔ آج ہمیں اگر پتہ بھی ہو کوئی اخلاقی طور پہ انتہائی زوال پذیر ہے تو ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے وقت میں صرف ایک دوسرے کے ساتھ لگ کے تصویریں کھینچ لی جاتی ہیں اور بیشتر سے پیشتر فیس بک پہ چڑ?ا دی جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمیں فرق نہیں پڑتا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمیں واقعی کسی کا کوئی اخلاقی مسئلہ مسئلہ لگتا ب?ی ہے یا تیز رفتاریوں کے اس دور میں اخلاقیات اور اقدار کے معیار بھی بدل گئے ہیں
انسان جذبات کی رو میں اکثر بڑی بڑی غلطیاں کربیٹھتا ہے بالآخر ہے تو انسان ہی حضرت آدم کی اولاد، فرشتہ نہیں ،چونکہ جذبات کی رو میں سر زد ہوتی ہیں تو غلطیوں کی نوعیت بھی جذباتی ہی ہوتی ہے۔ اسی لئے جذبات پہ قابو رکھنا بہت ضروری ہے ہمارا مذہب بھی یہی سکھاتا ہے معاشرے کی بقا اور فلاح کیلئے اورخود سے جڑے رشتوں اور لوگوں کی توقعات پہ پورا اترنے کیلئے ہمیں اپنی جذباتیت سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ لبرل سکول آف تھاٹ کا خیال مختلف ہے اپنی منطق میں وہ بھی کسی حد تک درست ہیں کہ خاندانی ،معاشرتی اور سماجی تقاضوں کو بخوبی پورا کرنے کے چکر میں اکثر اوقات لوگوں کو اپنے بہت سے فطری جذبوں کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے بیرونی دنیا میں تو سب ٹھیک چلتا رہتا ہے مگر اندرونی طور پہ بہت سے خلا بنتے جاتے ہیں ان خلاوں کو اگر بروقت پوائنٹ آوٹ نہ کیا جائے اور ان کی صحیح شناخت اور مرمت نہ کی جائے تو یہ اندرونی خلفشار ڈپریشن، اینگزائٹی، نروس بریک ڈاون جیسے نفسیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ بعض اوقات جسمانی بیماریوں کا بھی پیش خیمہ بن جاتا ہے
نہیں نہیں میں انسانی نفسیات کےپیچیدہ ترین مسائل کی گہرائی میں بالکل بھی نہی جانے والی۔ حالانکہ ہمیشہ کی طرح آج بھی انسانی نفسیات ایک بہت اہم موضوع اور انتہائی غور طلب مسئلہ ہے۔ یہ انسان کے اندر قدرتی جبلتیں جن کا صحیح راستہ نہ ملے تو گھٹن بڑھ کے بہت عجیب عجیب کام کرادیتی ہے لیکن ایسی صورتحال میں بھی صرف ایک فرد قصوروار نہیں ہوتا بلکہ اسی معاشرے کےبہت سے افراد انسانی نفسیات کے ان عوامل کے ذمہ دار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ جذباتی کنٹرول کھو بیٹھتا ہے
آجکل انٹرنیٹ کے دور میں جہاں سب مسائل ہاتھ بڑھاتے ہی حل ہوجاتے ہیں وہیں پر ہاتھ سے کلک کرتے ہی مسائل کا ڈھیر ہمارے ہاتھ لگتا ہے۔ کچھ دن ہوئے پتہ چلا کہ جذبات کی رو میں بہہ کر خواتین اپنی کچھ پوشیدہ ویڈیوز بناکر کچھ پوشیدہ دوستوں کو بھیج دیتی ہیں جو کہ ان کے یقینا”بہت قریی ہوتے ہیں میرے خیال سے کینیڈا میں رہتے ہوئے شخصی آزادی کاجو خمار چڑھا ہوا ہے وہ کسی حد تک اس مغربی ماحول کیلئے تو قابل برداشت ہوگا مگر بات جب آتی ہے پوشیدہ ویڈیوز کی۔۔تو شخصی آزادی ختم ہوکر جسمانی اور جنسی آزادی تک پہنچ جاتی ہے یہاں کے ماحول میں جنسی آزادی بھی قابل قبول ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار کا بھی بیڑہ غرق ہوگیا۔ ہم وہ کوے بن چکے ہیں جو ہنس کی چال کے چکر میں اپنی سے بھی گئے۔
تو بات یہ تھی کہ ویڈیو لڑکیوں یاخواتین نے پوشیدہ دوستوں کو بھیجیں۔ کیا سوچ کر بھیجیں ہم سب سمجھدار ہیں اور سب جانتے بھی ہیں یہ تو رہا خواتین کا قصور۔اس کے لئے مذہب یا معاشرہ کیا کہتا ہے سب اچھی طرح جانتے ہیں کینیڈین قانون شخصی آزادی دیتا ہے مگر ساتھ ہی سائبر کرائم اور سائیبر بلنگ جیسے سنگین مسائل سے بھی warnکرتا ہے کہ ایک بار ویڈیو اپلوڈ ہوئی تو انٹرنیٹ پر سے تھرڈ پارٹیز بھی استعمال کرسکتی ہیں اپنی کسی بھی قسم کی مارکیٹنگ کیلئے۔ ڈارک ویب اس وقت دنیا کیلئے سب سے غلیظ انٹرنیٹ مارکیٹ ہے جہاں پر ہر قسم کا غلط کام ہورہاہے
خیر سائیبر کرائم اور سائیبر بلنگ کے علاوہ جس پوشیدہ دوست کو ویڈیو بھیجی جاتی ہے کاش کہ وہ سچ مچ کچھ پوشیدہ رکھنے کے قابل ہوتا مگر افسوس ایسا نہیں ہوپاتا۔ آپ کے بہت اچھے دوست یا محبت کے وہ دعویدار جن کو ویڈیو بھیجی جاتی ہے کہ شاید جسم کی کشش سے کوئی کھنچا چلا آئے گا۔ اگر محبت سچی ہی ہو تو جسم پورے حقوق و فرائض کے ساتھ دو انسانوں کی زندگی میں شامل ہوتا ہے۔ لیکن جہاں اخلاقی ضابطوں سے نکل کے صرف جسم بچ جائے وہاں نہ محبت رہتی نہ مروت اور پھر یہ محبتوں کے متوالے وہ ویڈیوز پتہ نہیں کس کس کو بھیجتے اور محبت اور محبت کے نام پہ برہنہ جسم پتہ نہیں کن کن نظروں تک پہنچ جاتے ہیں ۔
ایسے میں سب سے پہلا قصور عورت کا ٹھہرایا جاتا ہے ہم انتہائی مہذب ہونے کے باوجود بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قصور ہمیشہ دونوں فریقین کا ہوتا ہے۔
ہر عمل کے پیچھے محرکات ہوتے ہیں عورت اگر اپنے جسم کی حفاظت نہیں کرپاتی تو اسے اس عمل پہ اکسانے والا بھی مرد ہے اکیلی عورت کیا کرے گی اپنی برہنہ ویڈیوز کا۔ تھوڑی دیر کیلئے اس سیناریو سے نکل کے سوچیں کہ جذباتی اور جسمانی تقاضوں سے دونوں کو نوازا گیا ہے لیکن ہر دفعہ جذباتی اور جسمانی ذلت صرف عورت کے حصے میں کیوں آتی ہے اس نے اگر انتہائی غلط قدم اٹھاکر ویڈیو بھیج بھی دی تو کیا اس کا مطلب یہ کہ اب اس ویڈیو کو پورے شہر میں گھمادیاجائے اگر یہ مسائل پولیس تک پہنچیں تو پرائیویسی ایکٹ کے تحت جو بھی کسی کی ذاتی نامناسب تصاویر یا ویڈیوز کسی دوسرے کو بھیجتا ہے بغیر اجازت کے تو یہ مکمل طور پر سائبر کرائم ہے پاکستان میں تو اس کی سزا بھی دی جارہی ہے اور یقیناً انٹرنیٹ کے اس شدید ترین دور میں یہ ایک بہترین اقدام ہے۔
ہمارا اخلاقی فریضہ ہے کہ اگر ایسی کوئی تصاویر یا ویڈیوز ہمارے علم میں آئیں تو بجائے اس مواد میں موجود خواتین یا بچیوں کی کردار کشی پر اپنی توانائی اور وقت ضائع کرنے کے، بھیجنے والے کو سمجھایا جائے کہ اگر کسی نے تم پہ اندھا اعتماد کر لیا ہے تو اس کے اندھے پن کوپورے شہر میں ثابت نہ کرو۔ دنیا مکافات عمل ہے ہماری نسلوں نے اسی سسٹم اور انہی خرافات کے درمیان میں پروان چڑھنا ہے لہزا ایسی وارداتوں پہ اگر ہم صرف کانوں پہ ہاتھ لگاکے توبہ توبہ کریں گے تو مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ ہمیں اپنا عملی کردار نبھانا ہوگا۔ معاشرے میں awareness دینی ہوگی۔ ہم صرف لڑکیوں کو منع کرتے ہیں عزت، غیرت بلکہ مذہب تک کے تمام تقاضے صرف عورت اور بچیوں کی ذات تک محدود ہوکے رہ گئے ہیں۔ اس وقت لڑکوں اور مردوں کی مثبت سوچ کی زیادہ ضرورت ہے۔ مرد کی غیرت یہ نہیں کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں پہ کڑی نظر رکھے بلکہ غیرت یہ ہے کہ کسی دوسرے کی بیٹی بہن کی عزت کی بھی اتنی ہی ذمہ داری لے۔
افسوس تو تب ہوتا ہے جب عورت کی جذباتیت کو ایک عورت ہی نہیں سمجھ پاتی اور محض خود کو اچھا ثابت کرنے کیلئے دوسروں عورتوں کی عزت تار تار کرنے تک سے گریز نہیں کرتی۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت عزت کا سمبل ہے لہزا اس کی عزت کیجئے یہ جیسی بھی ہو۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں کے بھی بہت سے ایسے روپ ہیں جوواقعی بہت شرمناک بھی ہیں مگر بات پھر وہیں آجاتی یے کہ ایسے لوگوں کی اخلاقی اور جذباتی ٹریننگ درکار ہوتی ہے ان محرکات کا علم اور ان کا سدباب اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
امید ہے کہ میں اپنا پوائنٹ کلئر کر پائی ہوں کیوں کہ یہ مسئلہ واقعی بہت حساس نوعیت کا ہے لہزا ہم سب کو مل کر اس کیلئے بہتری کی کوشش کرنا ہوگی۔مثبت طریقے سے اپنی منفیت اور منافقت کے پرودوں سے نکل کر۔۔۔
