تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 396

شریکا

ہمارے دیسی لوگ ہم سے اکثر سوال کرتے ہیں کہ نارتھ امریکہ جس میں کینیڈا بھی شامل ہے وہاں کی خصوصیات کیا ہیں جس کی وجہ سے تمام دنیا کے لوگ کینیڈا کھنچے چلے جاتے ہیں۔ جواب میں انہیں امریکہ کینیڈا کی تمام دوسری خوبیوں سے آگاہ کرنے کے بعد بتاتا ہوں کہ کینیڈا امریکہ کھڑوں اور چھڑوں کی سرزمین ہے یعنی اس ملک میں بیٹھنے کا رواج کم ہی ہے۔ یہ لوگ اپنے ملک میں کم ہی بیٹھتے ہیں مگر یہ دوسروں کے ملکوں میں جا کر مستقل بیٹھے رہنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ دوسری خصوصیات جس سے یہ بھی بیان کی گئی تھی کہ یہ اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں ہر چیز جس کو Disposal ڈسپوزل کہتے ہیں۔ اس ہی طرح ان کے یہاں تعلق بھی کچھ عرصہ کے لئے ہوتا ہے پھر وہ اپنے الگ الگ راستے پر نکل جاتے ہیں یوں یہ چھڑوں کی زندگی گزارنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔
پھر سوال یہ ہوتا ہے امریکہ اور کینیڈا میں کیا فرق ہے؟ میں جواب میں کہتا ہوں۔ وہی فرق ہے جو ہندوستان پاکستان میں ہے یعنی امریکہ کینیڈا سے اتنا ہی بڑا ملک ہے جتنا کہ بھارت پاکستان سے۔ جیسا کہ قائد اعظم کی خواہش تھی کہ مستقبل میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات بھی امریکہ کینیڈا کی طرح ہوں۔ قائد اعظم کی یہ خواہش کیوں پوری نہیں ہوئی مگر یہ الگ سوال ہے۔ امریکہ کینیڈا میں یہ فرق بھی ہے جیسا کہ پاکستان میں پنجاب اور بلوچستان میں فرق ہے۔ پنجاب کی زمین بقدر کم ہے بلوچستان سے، مگر آبادی کے لحاظ سے پنجاب کئی گنا زیادہ بڑا صوبہ ہے یعنی پنجاب کی آبادی میں بلوچستان کے مقابلے میں اتنا ہی بڑا فرق ہے جتنا کہ بلوچستان کے رقبہ کا پنجاب کے رقبہ میں فرق ہے۔ مگر یہاں کینیڈا کو امریکہ سے اس کو بڑے ملک ہونے کی وجہ سے وہ شکایات نہیں ہیں جو پاکستان کو بھارت سے شکایات ہیں یا بلوچستان کو پنجاب سے شکایات ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کے اکثر جنگجو پہاڑوں پر بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی شکایت بلوچستان کو پنجاب سے ہی نہیں بلکہ سندھ اور کے پی کے کے ساتھ ہے۔
پنجاب رہائشی چھوٹے پڑوسیوں کو اپنے سے بڑے اور بالادست پڑوسیوں سے بھی وہی شکایت ہے۔ پنجاب کے کلچر میں ان پڑوسیوں کو ”شریکا“ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ شریکوں سے تعلقات وہاں کے دیہی علاقوں میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان غیر مسلموں کو شریکا سمجھتے تھے جس کی وجہ سں وہاں کے مسلمانوں نے اپنے لئے الگ خطہ زمین کی جدوجہد کی اور اس امید پر پاکستان بنایا کہ اب شریکوں سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ مگر پاکستان کے قیام کے بعد ہی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ایک دوسرے سے شریکا سمجھ کر بدزن رہے پھر جب مشرقی پاکستان شریکا نہیں رہا تو سندھ اور بلوچستان کے ساتھ صوبہ سرحد میں بھی یہ ہی احساس ا±جاگر ہوگیا۔ یوں پنجاب کے بڑے علاقے میں شریکا کا احساس بہت زیادہ پایا جاتا ہے اس ہی طرح سندھ کے اندر بالائی سندھ اور اندرون سندھ میں بھی ایک دوسرے کو شریکا سمجھا جاتا ہے۔ اس ہی طرح کراچی میں بھی مختلف طبقات ایک دوسرے کو شریکا سمجھتے ہیں اس کے برخلاف قائد اعظم کی خواہش کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات امریکہ کینیڈا کی طرح ہونے چاہیئں مگر افسوس پاکستان بھارت کے تنگ نظر حکمرانوں کی ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ یہاں امریکہ اور کینیڈا نہ صرف آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہ رہے ہیں بلکہ یہ دونوں ملک ایک ہو کر بین الاقوامی معاملات میں مکمل یک سو ہیں۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ دونوں ممالک پہلے ایک ہی خطہ زمین مںی آپس میں ملکہ برطانیہ کے تحت ایک ملک کی حیثیت رکھتے تھے جیسا کہ متحدہ ہندوستان ملکہ برطانیہ کے تحت ایک ہی ملک سمجھا جاتا تھا۔ ایک طویل عرصے تک یہ دونوں ایک ملک کی حیثیت سے سلطنت برطانیہ کا حصہ تھے پھر ان کے ایک علاقے میں آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا دوسرے علاقے میں لوگوں نے سلطنت برطانیہ سے وفاداری کا اظہار کیا ایک بڑا حصہ اپنے آپ کو برطانیہ سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوا وہ یو ایس اے ”امریکہ“ کے نام سے دنیا میں پہچان رکھتا ہے۔ دوسرا حصہ اب کینیڈا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو اب تک ملکہ برطانیہ کے تحت ہے۔ مگر ان دونوں ملکوں میں تعلقات مثالی ہیں یعنی دو جسم ایک جان سمجھے جاتے ہیں۔ کینیڈا امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے ان دونوں میں ہر میدان میں ایک دوسرے سے تعاون کو فوقیت دی جاتی ہے ان دونوں ملکوں کی جہاں جہاں سرحدیں ملتی ہیں وہاں سے دونوں طرف کے لوگوں میں آزادانہ آمد و رفت کی اجات ہے۔ کوئی ویزا کی پابندی نہیں۔ صرف اپنے ملک کا پاپسورٹ دکھا کر دوسرے ملک میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ آپس میں لوگ اپنی چھٹیوں کو ایک دوسرے کے ملک میں گزارنا پسند کرتے ہیں یہ ہی صورت حال یہاں ہمارے دیسیوں کی ہے جب کوئی تہوار ہوتا ہے امریکہ کے رہائشی کینیڈا میں اور کینیڈا کے رہائشی امریکہ میں اپنے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ جس طرح ہندوستان پاکستان کے باشندے ایک جیسی تہذیب و ثقافت رکھتے ہیں اس ہی طرح امریکہ اور کینیڈا کے باشندے بھی مشترکہ کلچر و ثقافت تہذیب و تمدن کے ساتھ کھانے پینے رہنے سہنے کے طریقے ایک ہی جیسے رکھتے ہیں۔ وہ کبھی بھی ایک دوسرے کو اپنا شریکا نہیں سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔
اس ہی طرح یورپی یونین کی مثال ہے یہ وہ ممالک ہیں جو ماضی میں ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ شریکوں جیسا سلوک کرتے رہے جس کے دوران وہ ایک دوسرے کے ساتھ خونریز جنگوں میں لاکھوں لوگوں کو قتل غارت کرتے رہے۔ صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ دشمنیوں میں گزار کر بالاخر امن سے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہوئے۔ یہ سب اس وقت ہی ہوا جب ان کو شعور حاصل ہوا اور شعور اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک انسان جہالت کے اندھیروں سے نہ نکلے۔ جیسے ہی ان میں تعلیم کی روشنی حاصل ہو اس طرح وہ جنگ و جدل کو چھوڑ کر امن و سکون سے رہ سکے۔ آج یورپین ایک دوسرے کو شریکا سمجھنے کے بجائے امن و آتشتی سے ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔ ان سب کو یہ احساس ہوا کہ اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کیونکہ طاقت کا استعمال کرکے ایک دوسرے کے ساتھ جنگیں کرنے کے باوجود وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے جو انہوں نے افہام و تفہیم کے ذریعہ اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ آج پاکستان کے عوام کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ اس ہی انداز سے زندگیاں گزارنے کا طریقہ یورپین یونین اور امریکہ کینیڈا سے سیکھ کر اختیار کرنا چاہئے اگر وہ ایک محلہ میں رہتے ہیں تو اپنے پڑوسی کو شریکا سمجھنا چھوڑ کر پیار محبت سے زندگیاں بسر کرنے کی عادت اختیار کرنی چاہئے۔ اس ہی طرح کسی ایک شہر کے رہنے والے ہیں تو وہ دوسرے شہروں کو بھی شریکا نہ سمجھیں اور یہ ہی طریقہ صوبوں کو بھی اختیار کرنا چاہئے۔ آپس کے پڑوسی ملکوں کو بھی شریکا سمجھ کر آپس میں امن و شانتی کی زندگی گزارنی چاہئے۔
پاکستان کے چار پڑوسی ممالک ہیں جن کی سرحدیں پاکستان سے ملی ہوئی ہیں اس میں سے جتنی بڑی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی ہے اس کے پاکستان سے اتنے ہی شدید اختلافات ہیں، بھارت، افغانستان، ایران اور چین پاکستان سے جڑے ہوئے پڑوسی ہیں۔ بھارت سے سب سے زیادہ طویل ترین سرحدیں ملی ہوئی ہیں وہ پاکستان سے شدید جنگوں میں ملوث رہا ہے۔ اس ہی طرح افغانستان کی پاکستان سے طویل سرحدیں بھی امن کے بجائے حالت جنگ میں رہی ہیں۔ ایران بھی پاکستان سے اکثر ناراض رہتا ہے۔ صرف چین ہی ایسا ملک ہے جس کے پاکستان سے تعلقات خراب نہیں ہیں۔ اس لئے پڑوسیوں کو شریکا سمجھنے کا وطیرہ چھوڑ کر ان کے ساتھ وہ ہی انداز اختیار کرنا چاہئے جیسا کہ امریکہ، کینیڈا یا یورپین ممالک نے کیا ہے۔ یہ ہی طریقہ ملک کے اندر صوبوں اور شہروں کو بھی اختیار کرنا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں