عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 662

شریکِ غم ۔۔۔

شریک غم ہونے کی اصلیت اب مجھ پر واضح ہو گئی جب میں خود جوان سال بیٹے کے وفات کی وجہ سے غموں میں ڈوب چکا ہوں۔ ایک لمبی مدت تک میں بھی دنیا داری نبھاتے ہوئے دوسروں کے انتقال کے موقع پر متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہوئے برملا یہ دعویٰ کیا کرتا تھا کہ ”میں آپ لوگوں کے غم میں برابر کا شریک ہوں“ اس وقت مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا یا پھر میں غم کی اس شدت کو محسوس ہی نہیں کرسکتا تھا کہ جس کے ہاں فوتگی ہوئی ہے ان پر کیا گزر رہی ہے؟ یا وہ کس کرب میں مبتلا ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ فوتگی یا دوسرے کسی مشکل وقت میں کسی کے ہاں جا کر افسوس کرنا، دوسروں کا غم بانٹنے کے مترادف ہے۔ اور یہ ایک مذہبی اور اخلاقی طریقہ بھی ہے لیکن اصل دُکھ اور غم کا اندازہ اسے ہی ہوتا ہے جس پر گزر رہی ہوتی ہے، ہر باپ کی تمنا اور آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کی اولاد انہیں کندھا دیں اور جب بوڑھا کندھا جوان اولاد کو دیا جاتا ہے تو دُکھ اور غموں کا ایک نہ رُکنے والا طوفان آجاتا ہے، یہ کہہ کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ میں نہ تو پہلا باپ ہوں اور نہ ہی آخری۔۔۔
جو اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہوں، یہ تو کارخانہ قدرت کی کارستانی ہے جس نے آنا ہے اس نے جانا بھی ہے۔ کب؟ اور کیسے؟ یہ صرف پیدا کرنے والی ہستی ہی جانتی ہے۔ میں ان تمام احباب کا مشکور ہوں، جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں مجھے اور میرے اہل خانہ کو یاد رکھا اور ہر طرح سے غم بانٹنے کی کوشش کی۔ میرا جواں سال بیٹا ارسلان پچھلے ہفتے 9 نومبر کی شب کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں بیماری سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔ دُکھ اس بات کا ہے اس وقت میں ان کے ساتھ نہ تھا، مجھ سمیت کسی کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اچانک آناً فاناً اتنا کچھ ہو جائے گا۔ بیٹے کی بیماری کی اطلاع ملتے ہی اہلیہ کو کراچی روانہ کردیا تھا اور ان کے ہسپتال کے کمرے میں قدم رکھتے ہی بیٹا نے آخری ہچکی لے کر ملک عدم کی جانب چل پڑا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی والدہ کا انتظار کررہا تھا۔ یہ وہ واقعات اور حالات ہیں جن کی نظروں کے سامنے گھومنے سے نہ رکنے والے آنسو بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مجھے جوان بیٹے کے اس طرح سے چھوڑنے کا بہت دکھ ہے اسے کینیڈا لانے اور اپنے بڑھاپے کا سہارہ بنانے کے لئے میں نے ہر جتن کیا۔ لیکن مجھے کیا معولم تھا؟ کہ اس کی قسمت میں تو کچھ اور ہی لکھا ہے۔ اسے کینیڈا نہیں، کہیں اور جانا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ تھی ان کی والدہ پچھلے سال پورے 6 ماہ ان کے ساتھ رہیں، ان کا علان کروایا اور چلنے پھرنے کے قابل بنایا۔ مجھے تو اپنی کمسن پوتیوں کو دیکھ دیکھ کر رونا آرہا ہے کہ دونوں ننھی منھی تتلیاں کس طرح سے پہاڑ جیسے اس صدمے کو اپنے چھوٹے سے دل پر اٹھا سکیں گی۔ اور ان کی اہلیہ؟؟؟ میرے پاس تو اب الفاظ بھی نہیں کہ صورتحال کی منظر کشی کروں۔ اس رونے دھونے کے ماحول میں مجھے ڈپٹی نذیر احمد کی معرکتہ الارا تحریر ”ہنس نامہ“ یاد آگیا کہ کس طرح سے بالاخر ہنس کو اُڑ کر اپنے وطن تنہا جانا پڑتا ہے، میں بھی رو رہا ہوں، میری اہلیہ اور بہو بھی، سب کے سب دامن تر کررہے ہیں، لیکن ارسلان ہنس کی طرح سے اکیلا ہی اپنے وطن کی جانب چل پڑا، جہاں بالاخر ہم سب کو ایک ایک کرکے جانا ہے۔
آج کے کالم کا عنوان کچھ اور تھا، میں اکثر پاکستان کی تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال پر ہی صفحے سیاہ کرتا رہتا ہوں لیکن چونکہ میں بیٹے کی جدائیکی کیفیت سے نہیں نکل پایا ہوں اس لئے میرا کالم خودبخود اسی صورتحال پر اپنی مرضی سے چل رہا ہے۔
کالم کے عنوان ”شریک غم“ کے حوالے سے ملکی سیاست پر بھی کچھ عرض کرتا چلوں کہ اسی طرح سے جو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی دختر مریم نواز کے غم ہیں وہ ان کے اپنے ہیں، ان سے یکجہتی کے لئے پوری مسلم لیگ ن اکٹھی ہو کر بھی آجائے، ان دونوں باپ بیٹے کے غم کم یا ختم نہیں ہو سکتے، یہ ہی حال سابق صدر آصف علی زرداری کا ہے ان کے غم میں برابر شریک ہونے کا اعتراف و اقرار تو آئے روز ان کے ساتھی کرتے رہتے ہیں لیکن ان سب کی حالت گدھے کے ساتھ دوڑنے والے اس ”پخ“ کی سی ہے جو صرف دوڑتا ہے، گاڑی نہیں کھینچتا۔۔۔ البتہ اس کے دوڑنے سے گدھے کو یہ دھوکہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ دوڑنے والا ”پخ“ بھی گاڑی کھینچ رہا ہے لیکن یہاں گدھے نہیں سیاستدان ہیں جنہیں معلوم ہے کہ جو انہوں نے بویا ہے؟؟ وہی کاٹیں گے۔ کوئی اور نہیں۔ اس طرح سے انتقال والے گھر میں تعزیت کے لئے آنے والے بعض دوسرے لوگ بھی روتے ہیں لیکن اصل صدمے سے دوچار وہی ہوتا ہے جس کا لخت جگر ان سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو چکا ہوتا ہے اور یہ اس طرح کا زخم ہوتا ہے کہ جو دنیاوی مرہموں سے نہیں بھرتا بلکہ اسے بھرنے میں ایک بڑا وقت لگ جاتا ہے اور میں اس وقت کے انتظار میں ہوں۔
آخر میں ایک بار پھر احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں ساتھ دیا اور ان دوستوں سے معذرت خواہ ہوں جن سے ٹیلی فون یا سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ نہ ہوسکا۔ احباب سے درخواست ہے کہ وہ میرے بیٹے ارسلان کی مغفرت کے لئے دعا کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں