امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 251

شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟ ضمیر نیازی کے نام

گزشتہ دنوں پاکستان میں اور کچھ عالمی میڈیا پر پاکستان کے ایک صحافی اور ٹی وی اینکر حامد میر کے بارے میں غلغلہ تھا۔ ان کے آزادیءاظہار کے حقوق کی بات تھی۔ پھر ان کے ایک معافی نما بیان کا چرچا تھا۔ بعضوں کا قیاس تھا کہ شاید صحافیوں کی ایک انجمن کے اشتراک سے یہ معذرت نامہ اس لیے منظرِ عام پر آیا کہ، اس کی وجہہ سے حامدمیر کو وہ مراعات دوبارہ مل جایئں ، جو پاکستان کی صحافت کے عامل صحافیوں کے نہ تو نصیب میں ہیں نہ ان کے خواب و خیال میں ہیں۔ وہ باصفا عامل صحافی جن کو کئی ماہ تک تنخواہیں تک نہیں ملتیں اور جنہیںشدید علالت کا شکار ہونے کی صورت میں صحت کی مراعات تک نہیں دہ جاتیں۔خواہ ان کا تعلق پاکستان کے متول ترین اشاعتی ادارو ںہی سے کیوں نہ ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ بھی کئی بار کچھ دردمندوں کی اپیلوں پر ان مظلوموں کی امداد میں شریک رہے ہوں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے لیئے تو حامد میر جیسے صحافی اس ہی طبقہ میں شامل ہیں جس میں، شورش کاشمیری مولانا صلاح الدین، الطاف حسن قریشی جیسے معززین شامل شامل تھے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی نئی نسل کی نشوو نما پاکستان کی جامعات کے شعبہ ہائے صحافت میں منظم طریقہ سے کی گئی تھی، اور پھر جسے کچھ استثنا کے ساتھ پاکستان کے ہر صحافتی ادارے پر غلبہ ہوا۔ پھر ہماری نظر میں حامد میر کی استعمال کردہ ’لبرل فاشزم ، اور لبرل فاشسٹ ‘ کی اصطلاحیں آئیں۔ یہ اصطلاح مغرب میں گڑھی گئی تھی، اور من و عن انگریزی میں بھی Liberal Fascism ہی کہلاتی ہے۔ مغرب میں اس اصطلاح کو گڑھنے والے وہ شدید قدامت پرست تھے جنہیں ، ترقی پسندی یا آزاد خیالی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ شاید اسی وجہہ سے ان سب کی ضمن میں ہمارے ذہن میں ہمیشہ یہ سطر رہی کہ، کَسے کہ ک±شتہ نہ ش±د از قبیہ ئ ما نیست۔
ہمیں یہ سب سطریں لکھنا کا یارا یوں ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں گھٹی میں صحافت چٹائی گئی۔ ہمارے والد اولین دنوں کے ڈان اردو، انجام، اور امروز کے عامل صحافی تھے۔ لڑکپن میںٹین کے ایک بکسے میں ہمیں کراچی یونین آف جرنلسٹس کے آئین کا ہاتھ سے تحریر کردہ ایک ڈرافٹ ملا تھا، جسے لکھنے والوں میں ہمارے والد کے ساتھ ، اسرار احمد صاحب، اور شکور صاحب جیسے صحافی شامل تھے۔ وہاں سے ہمیں پتہ چلا تھا کہ عامل صحافی کون ہوتے ہیں اور ان کے حقوق کی حفاظت اور جدو جہد کیسے کی جائے گی۔ ہمارے دروازے پر اس زمانے میں ڈان ، جنگ، اور انجام ، وہ ہاکر پہنچاتے تھے جو صحافت کے ابلاغ کی بنیاد میں شامل تھے۔ بعد میں ان اخباروں میں حریت اور مارننگ نیوز بھی شامل ہو گئے۔
پھر پاکستان میں ماشل لا لگنے لگے۔ اور سنسر کا وہ سلسلہ عام ہوا جسے پریس ایڈوائس کہتے ہیں۔ وہی سلسلہ جو اب اور بھی نئے آمرانہ ڈھنگ اپنا چکا ہے۔ یہی وہ سلسلہ ہے جس کے بارے میں پاکستان کے ایک باصفا صحافی ، ضمیر نیازی نے اپنی کتابوں میں لکھا اور ہم جیسے طالب علموں کو بتایا کہ پاکستان میں صحافی اور صحافت کس جبر اور ظلم کا شکار رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ ان کی اہم کتابوں میں، Press in Chains، پا بہ زنجیر صحافت Press Under Siege، محصور صحافت، اور Web of Censorship سنسر شپ کا جال شامل ہیں۔
یہ وہی ضمیر نیازی ہیں کہ جو ایک موذی کنسر کا شکار تھے۔ اور جنھوں نے اس سخت بیماری میں مالی مشکلات کے باوجود ، صدارتی اعزاز اور مالی عطیہ ، قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔کیونکہ اس اعلان کے فوراً بعد پاکستان کے کئی اخباروں پر حملے کیئے گئے تھے۔ یہ اعزاز انہیں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے زمانے میں دےا گیا تھا۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ان کے انتقال کے بعد شائع ہونے والی ان کی ایک کتاب کے ایڈیشن سے جنرل ایوب، اور جنرل ضیا کو ذکر نکال دیا گیا تھا۔ ان کے وارثیں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ ایسا کیوں اور کس کے ایما پر ہوا تھا۔
ضمیر نیازی کو بعض لوگ پاکستان کا ضمیرِ صحافت بھی کہتے تھے۔ یہ ہمارا اعزاز ہے کہ ہم ان کی زندگی میں ان سے مل پائے۔ وہ عجیب یاد گار لمحہ تھا جب وہ اپنی بیماری کی وجہہ فرش پر گھسٹ کر چلنے کے باوجود ،ہم سے ملے اور سخت مشکل کے باجود، دروازے تک آئے۔ صرف اس وجہ سے کہ شاید آصف فرخی نے انہیں بتادیا تھا کہ ہم اظہار ِ رائے کے عمل پرست ہیں، اور ان کی کتابیں ہم جیسے مبتدیوں کی مدد گار ہیں۔ اپنے انتقال سے کچھ دن پہلے اپنے آخری انٹرویو میں صحافت کی زبوں حالی کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ، دراصل میڈیا مالکان، بااختیار ادارے، اور صحافی خود صحافتی معیاروں کے زوال کے مجرم ہیں۔
ضمیر نیازی سے واقف ہونے سے پہلے ہم نے وہ دن بھی دیکھے تھے جب بھٹو صاحب کے دور میں ، ڈان کے الطاف گوہر ، اور حریت کے انور خلیل کو ہتھکڑیوں میں سندھ ہائی کورٹ میں ، جسٹس نور العارفین کی عدالت میں لایا جاتا تھا، اور اس کی تشہیر کی جاتی تھی۔ ہر پیشی میں جسٹس نور العارفین ان کی ضمانت منظور کرتے تھے ، اور پھر فوراً ہی انہیں عدالت کے پھاٹک پر دوبارہ گرفتار کر کیا جاتا تھا۔
آزادیءرائے کی ضمن میں دو ایسی شخصیات بھی یاد آتی جن سے ہمیں اس زمانے میں ملنے کا اعزاز حاصل ہوا جب ہم کینیڈا میں آزادیءاظہار کے سب سے بڑے ادارے ، پین کینیڈا، کے بورڈ کے رکن بنے تھے۔پہلی شخصیت ایران کے ممتاز دانشور، رضا براہینی تھے، جو ایران میں جدید ادب اور جدید تنقید کے اہم نام تھے۔ وہ فیض اور راشد دونوں ہی سے واقف تھے۔ ہماری ان سے پہلی ملاقات جب ہوئی جب وہ پین کینیڈا کے سابق صدر تھے، اور کینیڈا میں فیض کے بارے میں ایک مرکزی پروگرام میں تقریر کرنے آئے تھے۔ ایران سے ہجرت کرنے سے قبل انہیں شاہ ایران اور امام خمینی ، دونوں ہی کے ادوار میں قید و بند جھیلنا پڑی تھی۔ انہوں نے اس دور کے بارے میں ایک بڑی کتاب لکھی ، جس کا عنوان ، تاج پوشانِ آدم خور، ہے۔
اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میںThe Crowned Cannibals کے عنوا ن سے شائع ہوا جس کا پیش لفظ ممتاز مصنف Gore Vidal نے لکھا تھا۔ کتاب میں ذکر ہے کہ رضا براہینی کا ایک ساتھی قیدی تشدد کے لیئے لے جایا گیا اور واپس نہیں آیا۔ دوسرے روز قیدیوں کو خلافِ معمول، دال اور سبزی کے بجائے گوشت کا سالن دیا گیا۔ اس وقت ایک شخص کے لقمہ میں انسانی ہاتھ کی ہڈیا ں آگیئں۔ وہ کینیڈا میں عسرت کی زندگی گزار ہے تھے۔ ایرانی تارکین وطن نے ان کی مدد کے لیئے ایک امدادی جلسہ بھی کےا تھا۔ اور پین کنیڈا کی طرف سے انہیں ایک سال کے لیئے ایک جامعہ سے وظیفہ دلوایا گیا تھا۔
آزادیءاظہار سے متعلق ایک اورشخصیت جو ہمارے ذہن پر نقش ہے، وہ یوگینڈا کے ڈرامہ نویس ، جورج سیریمبا ، کی ہے۔ ان پر کم عمری میں یہ الزام لگا کہ وہ سولہ سال کی عمر میں فرانس میں یوگینڈا کے مزاحمت کاروں کے ساتھ دیکھے گئے تھے۔ وطن واپس جانے کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا ، اور سپاہی انہیں کئی دوسروں لوگوں کے ساتھ قتل کرنے کے لیئے ایک جنگل میں لے گئے۔ ان پر گولیاں برسائی گیئں۔ کئی ہلاک ہو گئے۔ یہ شدید زخمی ہوئے ، اور کسی طرح سے وہاں سے نکل پائے۔ آزادیءاظہار کی ایک انجمن نے بعد میں انہیں مدد کے لیئے پین کینیڈا کے پاس بھیج دیا۔ انہیں کچھ عارضی مدد دی گئی۔ انہوں نے بھی کینیڈا میں کئی سال عسرت کی زندگی گزاری۔ پھر آئر لینڈ چلے گئے۔ انہوں نے کئی ڈرامے لکھے، جن میں سے ایک کا عنوان، The Grave will Decide ہے۔ آج کی سطور کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب ہم اور آپ پاکستان میں یا کہیں بھی آزادی ءاظہار کے بارے میں، پاکی ءداماں کی حکایات سنیں تو خود دیکھ لیں کہ اس کے معیار کیا ہیں۔ آزادی رائے کیا ہے اور ہتکِ عزت کیا ہے۔ اور وہ کون باصفا ہے جس کو معیار کے طور دیکھا جائے گا۔ آزادی ءاظہار کے بارے میں، چا ہے وہ پاکستان میں ہو یا دنیا میں کہیں بھی، ایک بات طے ہے کہ، جو راہ ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کے جاتی ہے، اور اس پر صرف وہ چل سکتے ہیں کہ جو دستِ قاتل کے شایاں بھی ہوں اور شائق بھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں