بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 358

شہر کراچی ایسا لاوارث جو سب کا وارث ہے

عروس البلاد کراچی کی شان جسے دیکھ کر ملک بھر کے دیگر حصوں سے آنے والے دیکھ کر دنگ رہ جایا کرتے تھے۔ آج کف افسوس مل رہے ہیں۔ روشنیوں کے اس شہر کو جس نے پورے پاکستان کے پیٹ کی آگ بجھائی۔ کس طرح آہستہ آہستہ اندھیروں اور غلاظتوں میں ڈبو دیا گیا۔ پہلے تو کلفٹن برج سے ایک جانب کا کراچی اور برج کے دوسری جانب کا کراچی قدرے مختلف ہوتا تھا مگر اب تو صورتحال دونوں جانب ناگفتہ بہ ہے، ہر جگہ گندگی کے ڈھیر اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں اس شہر کی بے بسی کا ایسا نقشہ پیش کررہی ہیں جو ان لوگوں کے دلوں پر آرے چلا گیا ہے جنہوں نے کراچی کی اصل خوبصورتی دیکھی ہے۔ وہ جو رات گئے گھروں سے نکلتے تھے اور پھر رات دیر تلک اس شہر کی روشنیوں اور سمندری ہواﺅں سے لطف اندوز ہو کر پی آئی ڈی سی کا پان منہ میں دبائے گھروں کو لوٹتے تھے۔ نہ کہیں لاقانونیت، نہ گندگی کے ڈھیر اور نہ ہی سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ۔ روڈ اسٹریٹ لائٹس سے منور، درختوں کی قطاریں، سڑک کے درمیان پھولوں کی کیاریاں اور رات میں چمکتی اور بل کھاتی شاہرائیں۔ یہ تھا عروس البلاد کراچی کے جہاں زندگی دنیا کے کسی بھی بڑے ملک سے کسی طور کم نہیں تھی مگر پھر نہ جانے کس کی نظر کھا گئی۔ ہاں کے رہنے والوں نے اپنے ہی بھائیوں کو بندوق کی نوک پر لے لیا اورپھر جب پرائیویٹ بندوق کا اقتدار ختم ہوا تو پھر سرکاری بندوق نے اس کی جگہ لے لی۔ یوں کراچی کی ہی چیز بکنے لگی، یہاں کا پانی اور یہاں کی زمین کے سوداگر، پاکستان بھر سے آئے اور پھر کراچی کو کراچی والوں کے لئے اجنبی بنا دیا گیا۔ آج کراچی کا کوئی والی وارث نہیں۔ سب کراچی کی گاﺅ ماتا کا دودھ پی رہے ہیں مگر اسے چارہ ڈالنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ نہ جانے اس قدر نفرت کی کیا وجہ ہے؟ سیاسی وابستگی ہونا ایک الگ چیز ہے اور انسانیت کی نظر سے اپنے ہم وطنوں کی مشکلات کا ازالہ کرنا ایک علیحدہ معاملہ مگر نہ جانے کیوں یہ طے کر لیا ہے کہ کراچی کو یوں ہی بے یار و مددگار رکھنا ہے اور یہاں بسنے والے لوگوں کو جوتے کی نوک پر رکھنا ہے۔ ان کے تمام حقوق سلب رکھنے ہیں اور انہیں یونہی دھتکارتے رہنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں