امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 274

صدر ٹرمپ کی شکست

اس وقت ساری دنیا میں صرف ایک ہی ذکر ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتخابات میں واضح شکست کا اور ان کا اس شکست سے انکار۔ دوسری اہم حقیقت کووِڈ ےعنی کورونا وائر س کی وبا اور اس سے نجات کی امید۔
آج ہم ٹرمپ کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ کا سیاسی نظام نہایت پیچیدہ ہے۔ وہاں جمہوری انتخاب، بالخصوص صدر کا انتخاب اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل ہے۔ اسے لیے اس ملک کا نام، ”ریاست ہائے متحدہ امریکہ“ ہے۔ جس کو آپ USA کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی United States of America۔۔۔ اس وفاق کی پچاس ریاستیں، ملکی دفاع، اور خزانے کے معاملے میں مکمل خود مختار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین میں وفاق اور ریاستوں کے حقوق اور ذمہ داریہ واضح طور پر بیان کردی گئی ہیں۔ آئین میں بنیادی حقوق بھی طے کیئے گئے ہیں۔ امریکی سیاست پر ایک سابقہ سیاہ داغ وہاں کا دورِ غلامی ہے، جسے ختم کرنے کی جدو جہد میں امریکی ریاست میں شامل اولین تیرہ ریاستیں خوں ریز خانہ جنگی سے گزریں۔ امریکی صدر ابراہام لنکن کی صدارت میں غلامی کو ختم کیا گیا، لیکن اس کے فوراً بعد انہیں قتل کردیا گےا۔ امریکی بہر طور اس تشدد سے بچنا چاہتے ہیں۔
ریاست کا نظام ایک مثلث ہے۔ جس میں صدر یا انتظامیہ، کانگریس یا مقننہ، اور عدلیہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک تناﺅ میں بھی رہتے ہیں۔ کسی بھی اہم آئینی مسئلہ یا قضیہ پر وہاں کی سپریم کورٹ کا حکم حرفِ آخر ہوتا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس صدر کی خواہش پر امریکی ایوانِ بالا کی منظوری کی بعد تا حیات متعین کیئے جاتے ہیں۔ یوں سپریم کورٹ امریکہ کی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے نظریات کی حمایتی نظر آتی ہے۔ لیکن آئینی اور انصاف کی روایات اتنی گہری ہیں، کی اکثر عدالت ان نظریات سے آزاد ہو کر فیصلہ کرتی ہے۔
امریکی صدر، اور دیگر انتخابات گو براہِ راست نظر آتے ہیں لیکن ایک طرح سے بالواسطہ ہیں۔ امریکی عوام دو یا ان سے زائد جماعتوں کے صدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ لیکن وہ اس طرح سے ایک انتخابی کالج کا انتخابات کرتے ہیں۔ اس کالج کے اراکین کی تعداد ان کے ایوانِ زیریں میں نمائندوں کے برابر ہوتی۔ اس وقت ان اراکین کی کل تعدا د پانچ سو اڑتیس ہے۔ بڑی ریاستوں میں یہ تعداد زیادہ ہے۔ انتخابات کے بعد ہر ریاست کے سارے اراکین کے ووٹ اس جماعت کے حق میں چلے جاتے ہیں جس نے اس ریاست میں اکثریت کی ہوتی ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک صدارتی امیدوار قومی سطح پر زیادہ ووٹ لے لے لیکن انتخابی کالج میں مجموعی اکثریت نہ حاصل کر سکے، اور شکست کھائے۔
حالیہ انتخابات میں صدر ٹرمپ نے قومی طور پر بھی شکست کھائی اور انتخابی کالج میں بھی۔ انہوں نے اول دن سے ہی شکست ماننے سے انکا ر کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اور ان کی جماعت نے سارے ملک میں پچاس سے زیادہ مقدمات دائر کیئے۔ یوں انہوں نے امریکی نظامِ انتخاب کے خلاف شکوک پید ا کیئے اور مختلف ریاستوں میں اپنی ہی جماعت کے ریاستی عہدے داروں کے خلاف گالی گلوچ بھی کی۔ ان کے حامی کئی جگہوں پر تشدد پر بھی اترے، جو امریکہ کی تاریخی جمہوری روایات کی نفی تھی۔
امریکہ کی عدالتوں نے اپنی تاریخی روایات کے تحت انتخابی مقدمات کے منصفانہ فیصلے کیئے۔ اور تقریبا ہر عدالت نے ان کے الزام رد کیئے۔ حالانکہ اکثر عدالتوں میں خود ان کے یا ان کی قدامت پرست جماعت کے متعین کردہ جج اکثریت میں تھے۔ ایسے دو مقدمے سپریم کورٹ میں پہنچے جہاں چھ قدامت پرست اور تین آزاد خیال جج تھے۔ ان میں سے بھی تین خود صدر ٹرمپ نے متعین کیے تھے۔ اس کے باوجود دو بار سپریم کورٹ نے ان کے مقدموں کو بالاتفاق رد کر دیا۔ پھر صدر ٹرمپ نے انتخابی کالج کے عہدیداروں پر دباﺅڈالنا شروع کیا لیکن ان سب نے بھی واضح اکثریت سے اس اس دباﺅ کو رد کرتے ہوئے، ان کے مخالف جو بائیڈن کو منتخب کر لیا۔ اب اس کا حتمی فیصلہ کانگریس میں ہوگا ، جہاں ایک بار پھر صدر ٹرمپ سازشوں کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہ وہاں بھی ہار جایئں گے۔
ان سارے تنازعات کے ذریعہ صدر ٹرمپ نے امریکی جہوری روایات کمزور کی ہیں۔ جن کو سدھارنے میں وقت لگے گا۔ صدر ٹرمپ کی شکست کے باوجود ان کی قدامت پرست جماعت اپنے مقاصدمیں کامیاب ہوئی ہے۔ اب وہاں کی ریاست پر قدامت پرست نظریا ت کی چھاپ گہری ہے، جسے ہلکا کرتے کرتے دس سال سے بھی زیادہ لگ سکتے ہیں۔
جہاں تک کووِڈ کا تعلق ہے، امریکہ میں تین لاکھ سے زیادہ افراد وفات پاچکے ہیں۔ جو دنیا میں کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اب ٹیکوں کی وصولی کے بعد وہاں ٹیکے لگانے کا کام شروع ہو گا جس میں صرف لازمی آبادی کو ٹیکے لگانے میں کئی مہینے لگیں گے۔ کم ترقی یافتہ ملکوں میں مشکلات جاری رہیں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں