ایک اور پنڈورہ بکس صدر مملکت کے بروقت بیدار ہونے کی وجہ سے کھل گیا، ایک اس طرح کا پینڈورا بکس جو مملکت خداداد کو ری پبلک بنانا ثابت کرنے کے لئے کافی ہے یعنی ایک اس طرح کا مسودہ اور بل قانون کی شکل کر گیا جس پر صدر مملکت نے دستخط ہی نہیں کئے۔ قانون کے حکمرانی سے محروم کسی ملک میں اس طرح کی قانون سازی کے عمل پر حیران و پریشان ہونے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں، وہاں شاہی فرمان ہی قانون کا درجہ رکھتے ہیں جو ہر فورم چاہے وہ پارلیمنٹ ہو یا پھر اعلیٰ عدلیہ سب پر مقدم خیال کئے جاتے تھے اور انہیں ایک طرح سے نعوذ باللہ آسمانی حکم سمجھ کر نہ صرف مانا جاتا ہے بلکہ تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔
اب اگر صدر مملکت خواب غفلت سے بیدار ہو کر یہ واویلا مچا ہی دیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جس بل کو قانون بنا دیا گیا ہے اس پر تو انہوں نے دستخط ہی نہیں کئے پھر کس طرح سے اسے قانون کا درجہ دے دیا گیا اور کس طرح سے اس نوزائیدہ اور لنگڑے لولے قانون کا استعمال کرکے مخالفین کے خلاف مقدمات کے نہ صرف اندراج بلکہ گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ اس قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والوں کو جلدی تھی ان سے صبر نہیں ہونے جا رہا تھا انہوں نے ہی صدارتی آفس پر دباﺅ ڈالا یا پھر کچھ بھی ایسے کر ڈالا کہ انہوں نے بلا صدر کے منظوری یا پھر جعلی دستخطوں کے ذریعے ہی کام چلوا کر اس بل کو قانونی شکل دیدی اور اس کے بعد اس قانون کا فوری طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف استعمال کرلیا۔
یہ مملکت خداداد میں ہو کیا رہا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا آفس یعنی صدارتی محل بھی سازشوں سے، جعلسازیوں سے اور بدمعاشیوں سے محفوظ نہیں اور ایک طرح سے صدر خود اپنے محل میں یرغمال دکھائی دے رہے ہیں۔ زبردستی ان سے من پسند بلوں پر دستخط کروا کر قانون سازی کروائی جارہی ہے۔ صدر نے خدا کا گواہ بنا کر یہ کہنا کہ انہوں نے اس طرح کے کسی بھی بل پر دستخط نہیں کئے ان کے سچ ثابت کرنے کے کافی ہے۔ اس طرح کی گری ہوئی حرکت سے پاکستان کے جمہوریت کے کمزور ترین سانچے اور ڈھانچے کی بھی حقیقت پاکستان میں رہنے والوں پر بالخصوص اور عالمی دنیا پر بالعموم واضح ہو گئی کہ پاکستان میں جمہوریت و میوریت کچھ نہیں، یہ صرف اس کا چورن بیچ کر پوری دنیا کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ ملک میں ایک بدترین آمریت ہے جس نے اپنے مکروہ اور بدبودار بھیانک چہرے کو ڈھانپنے کے لئے اس پر جمہوریت کا خوبصورت نقاب لگا رکھا ہے اور بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا سب کچھ جاننے کے باوجود اس طرح کے آمروں کا سہولت کار بن کر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے اور وہی میڈیا پرسن ملکی عوام کو گمراہ کررہے ہیں جس طرح کا ایک پاور شو اسلام آباد میں پی ٹی ایم نے کروایا وہ بھی سب کے سامنے ہے کہ وہ کس نے کروایا اور اس کے مقاصد کیا تھے۔ گالیاں کھانے والے ہی بدقسمتی سے اس پاور شو کے ڈائریکٹر تھے، ویسے حیران کن بات ہے کہ عمران خان کی محبت یا پھر اس کی دشمنی نے لوگوں کو کیا سے کیا کروانے پر مجبور کردیا کہ وہ خود ہی اپنوں سے یہ کہنے پر مجبور کررہے ہیں کہ وہ انہیں گالیاں دیں تاکہ خیبرپختونخواہ سے عمران خان کے ووٹ بینک پر ڈاکہ ڈالنے میں انہیں آسانی ہو، ایسا کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اب پختونوں کو بے وقوف اور عقل سے پیدل خیال کرتے ہیں۔ وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ اس طرح کے ناٹ سے وہ خیبرپختونخواہ کے عوام کے ووٹ بینک کو عمران خان سے منظور پشتین کی طرف منتقل کروادیں گے۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے، پختون قوم اب بہت زیادہ سمجھ دار اور باشعور ہو چکی ہے، وہ گملے کے پودوں اور تنا آور درختوں کے فرق کو اچھی طرح سے جانتی بھی ہے اور پہچانتی بھی ہے۔ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کون ان کا اپنا ہے اور کون اپنوں کی شکل میں دوسروں کا ہے۔ اس طرح سے یہ چورن کسی بھی صورت میں نہیں بکے گا۔ سوائے خود اپنے کتوں کو خود پر بھونکوانے کے۔ اسے قدرت کا انتقام سمجھیئے کہ کس طرح سے قدرت انتقام لیتی ہے۔
سپریم کورٹ کو کم از کم اس ڈرامائی اور پراسرار قانون سازی کا تو ازخود نوٹس لینا چاہئے کہ کس طرح سے صدر کو بائی پاس کرکے قانون سازی کروائی گئی ہے۔ اس مداخلت میں ہی جمہوریت کی مضبوطی اور پاکستان کی سلامتی و استحکام مضمر ہے۔
130