ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بھارت کی دو ریاستوں میں مودی کی شکست کے بعد پارٹی میٹنگ میں ایک وزیر نے اپنی قیادت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ الیکشن ووٹ کے ذریعے نہیں بلکہ جذبات کے بہاﺅ کے سہارے جیتا جاتا ہے جب بھارتی میڈیا نے الیکشن جیتنے کے گُر کے حوالے سے وزیر موصوف کے بیان کی شکل میں یہ انکشاف کیا تو وزیر موصوف نے فوری طور پر وضاحت جاری کردی کہ ان کی زبان پھسل گئی تھی اور اس کے بعد پلوامہ کشمیر کا وہ افسوسناک اور ڈرامائی سانحہ رونما ہوا جس کے بعد جیسے مودی سرکار میں جان پڑ گئی ہو، انہوں نے اپنی ساری توپوں کا رُخ ہی پاکستان کی جانب کردیا اور الزامات کے نہ رکنے والے سلسلے کا آغاز کردیا جب بھارت میں یہ ساری کچھڑی پک رہی تھی اس وقت پاکستان ترقی کے ایک نئی شارع پر تیزی کے ساتھ رواں دواں تھا۔ پاکستانی حکمرانوں کو تو اپنی اپوزیشن کے کرپشن بچاﺅ واویلے کا جواب دینے کی بھی فرصت نہیں تھی، وہ اڑوس پڑوس کے معاملات میں تانکہ جھانکی کس طرح سے کرتے۔۔۔؟؟
خیر دنیا کو مودی کے ڈراموں اور اسلام و پاکستان دشمنی کی اچھی طرح خبر ہے۔ ہر ذی شعور شخص یہ جانتا ہے کہ مودی سرکار نے نائن الیوں سانحہ کی طرح سے باضابطہ منصوبہ بندی کرکے پلوامہ کا سانحہ کروایا جس کے ایک دو نہیں بہت سارے وجوہات تھیں جس میں بھارت کا عالمی تنہائی کا شکار ہونا بھی شامل ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کے ذریعے جس طرح سے پاکستان کو پچھلے دس سالوں میں عالمی تناہئی کا شکار کردیا تھا اسی طرح سے عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بدلنے کے بعد خود ساختہ طور پر پیدا کی جانے والی عالمی تنہائی بھی دور ہو گئی۔ پاکستان کا خارجہ آفس نئی قیادت کے آتے ہی متحرک ہو گیا اور پاکستانی سفیر جنہوں نے سابقہ حکومتی احکامات کے تحت چپ سادہ لی تھی وہ بھی اب بیرون ملک کھل کر پاکستان کا اور کشمیر کا مقدمہ لڑنے لگ گئے ہیں۔ غرض عمران خان کے آتے ہی عربستان کا رُخ پاکستان کی جانب ہو گیا اور سرمایہ کاری کا نہ رُکنے والا سلسلہ پاکستان کی جانب بڑھنے لگا جس کی وجہ سے بھارت کے پیٹ میں بُری طرح سے درد اُٹھنے لگا۔ درد تو تو کرتارپور کی راہداری کھولنے پر بھی ہوا تھا اس لئے سکھ برادی کی مخالفت کا سامنا کرنے کے باوجود بھارت نے پاکستان کے اس اقدام کو اس طرح سے خوش آمدید نہیں کیا جس طرح سے کرنا چاہئے تھا۔ ان تمام تر صورتحال کے بعد ہی بھارت کو اپنی عالمی تنہائی ختم کرنے اور دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لئے پلوامہ کا سانحہ کرکے اپنے 42 فوجیوں کو مروانا پڑا اور اس کے فوری بعد باضابطہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس کا الزام پاکستان پر لگا کر ایک بار پھر ساری دنیا کو پاکستان سے متنفر کروانے کی کوشش کی گئی لیکن بھارت کو اس کا اس طرح سے ردعمل نہ تو پاکستان سے ملا اور نہ ہی باقی ماندہ دنیا سے۔ جس طرح کی توقع بھارتی پالیسی سازوں نے کی تھی۔ چین نے پلوامہ سانحہ کے اڑتالیس گھنٹے بعد ہی بہت بری طرح سے بھارتی الزامات کو مسترد کردیا اور جیش محمد اور اظہر محمود کو دہشت گرد کہنے سے انکار کردیا۔ اس طرح سے اپنے 42 فوجیوں کو اپنے ہاتھوں مروانے کے باوجود بھارت اپنی عالمی تنہائی ختم نہ کرسکا۔
جس بند گلی میں وہ پاکستان کو دھکیلنے کی کوشش کررہا تھا اپنی غلطی سے وہ خود اس گلی کا مسافر بن گیا ہے۔ پلوامہ سانحہ کے ذریعے مودی سرکار کو ان کے متوقع الیکشن میں تھوڑا بہت فائدہ تو ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ نفرت کی بنیاد پر ہندو کارڈ اور دشمن ملک کارڈ استعمال کرکے ہندو ووٹروں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے یہ الیکشن کسی طرح سے جیت جائے لیکن ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے جس طرح سے نفرت بھارت میں پھیل رہی ہے اس نے بھارت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اسی نفرت کی وجہ سے کشمیر کے بعد خالصتان تحریک سر اٹھائے کھڑی ہے۔
مودی کی سربراہی میں بھارت مکمل طور پر ہندوانہ روپ دھار چکا ہے۔ سکھ، عیسائی اور مسلمان سمیت تمام اقلیتیں خوف کے ماحول میں رہ رہی ہیں اور اس طرح کی کیفیت کسی بھی ملک کے استحکام کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں ہوتی لیکن یہ کون سمجھائے انہیں جو اقتدار کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
عمران خان نے پلوامہ سانحہ کے بعد گزشتہ روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پلوامہ حملے میں تحقیقات کی پیشکش پر بھارت نے ہٹ دھرمی برقرار رکھی۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان جوابی پوزیشن میں ہے۔ بھارت کو ماضی سے نکلنا چاہئے، جنگ اپنی مرضی سے شروع تو کی جا سکتی ہے مگر بند نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی اسی طرح سے غیر ملکی سفیروں کو گروپوں کی شکل میں بریفنگ دے کر بھارت کا مکروہ اور گناہ آلود چہرہ دکھاتے رہیں۔ بھارت پلوامہ سانحہ کی شکل میں عالمی جرم کا مرتکب ہو چکا ہے، اس وجہ سے اس کے اس گھناﺅنے کردار کو شواہد کے ساتھ دنیا کے سامنے لائیں۔ اسی میں پاکستان کی بقاءاور اس کی سلامتی مضمر ہے کہ ”صیاد خود ہی اپنے دام میں آچکا ہے“۔
590