عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 132

عمران خان سرخرو!

عمران خان کو مجرم بنانے والے مقدمے کے فیصلے کے معطلی سے عمران خان کو اخلاقی فتح مل گئی اور ان کا بیانیہ پوری آب و تاب کے ساتھ درست ثابت ہو گیا ہے اس ایک مقدمے کے غلط ثابت ہونے سے عمران خان کے خلاف درج دوسرے ہزاروں مقدمات بھی مشکوک ہو گئے۔ اس طرح سے اس گھیرنے والوں کو ایک بہت بڑی شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کے خیالات اس وقت پاکستان کے دانشوروں میں بالخصوص اور عالمی دانشوروں میں بالعموم پائے جاتے ہیں جس کے بعد اب اس شبے کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ملکی عوام کی جو درگت اس وقت ہونے جارہی ہے اس کی وجہ سے وہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اس بدلتی صورتحال میں جہاں اب الیکشن کو ملتوی کروانا پالیسی میکروں کے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے اسی طرح سے عمران خان کو زیادہ دیر تک جھوٹے مقدمات کے ذریعے جیل میں رکھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ بالاخر انہیں عمران خان سے بارگینگ کرنا ہی پڑے گا۔ دونوں جانبوں سے لچک پیدا کروانا ابھی ضروری ہو گیا ہے اور برف کو پگھلانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سنگ میل ثابت ہونے جارہا ہے۔ دونوں جانبوں سے لگتا ہے کہ ہر کسی کو اپنے اپنے غلطی اور حماقتوں کا احساس ہو گیا ہے اس وجہ سے معاملات اندرون خانہ پھر ظاہری طور پر مذاکرات کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
دوسری جانب عمران خان کے ووٹ بینک کو ختم کرنے کے لئے جتنے بھی حربے اختیار کئے گئے ان کی حالت چلیدہ کارتوس سے زیادہ نہیں نکلی اور اس سارے اقدامات سے خود تحریک انصاف میں چھپے آستین کے سانپ ایک ایک کرکے بے نقاب ہوتے چلے گئے اور ایک طرح سے خود پالیسی میکروں کے ذریعے تحریک انصاف تیزاب سے دھل گئی۔ سارے کا سارا گند تحریک انصاف سے نکال باہر کردیا گیا جو آخری چورن یا پھر منجن بیچ کر عمران خان کو غیر مقبول بنانے کی کوشش کی گئی وہ بھی پالیسی میکرز کو مہنگی پڑی اور ساری کی ساری تدبیریں الٹی ہو گئی۔ میرا اشارہ منظور پشتین کی جانب ہے جس طرح سے اسلام آباد میں مظاہرہ کروایا گیا جس میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف بہت نعرے لگوائے گئے اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ نتائج نہ ملے سکے جس کے لئے یہ سارا اسٹیج سجایا گیا تھا جس میں مفت کی گالیاں کھائی گئی، اداروں کی بدنامی اور رسوائی کروائی گئی مگر منظور پشتین عمران خان کی جگہ نہ لے سکا کیونکہ اب پختون وہ پختون نہ رہے بلکہ وہ اب بہت باشعور ہو چکے ہیں انہیں اچھے برے کی تمیز ہو گئی ہے وہ دوست اور دشمنوں کو اچھی طرح سے پہچانتے ہیں، جانتے بھی ہیں، اس وجہ سے ایک منظور پشتین کیا ایک ہزار منظور پشتین بھی آجائے، وہ عمران خان کا ووٹ بینک توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ پشتون عوام اچھی طرح سے ملک سے محبت کرنے والوں کو بھی جانتے ہیں اور ملک دشمنوں کو بھی۔۔۔
اس لئے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ مزید تجربات سے گریزکریں اور عوام کو ان کے حقوق واپس کریں۔ حقیقی آزادی کی اس تحریک کو مزید روکنے اور دبانے کی کوشش نہ کریں بلکہ عوامی جذبات و خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اسے سیاسی رہنماﺅں کو اپنا کاندھا فراہم کریں جن کی جڑیں عوام میں ہیں جو اس ملک اور اس پر بسنے والے 25 کروڑ عوام سے مخلص ہیں اور وہ ملک اور عوام کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پالیسی میکروں کو چاہئے کہ وہ انہیں آگے لائیں اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو وہ کارخیر سمجھ کر ہٹانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ملک کی سب سے بڑی بیماری جنگل کا قانون یعنی قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے۔ ساری مشکلات اور بیماریوں کا ایک ہی حل ایک ہی علاج قانون کی حکمرانی ہے۔ خدارا قانون کی حکمرانی کی راہ ہموار کرکے ملک کو اس تباہی کی دلدل سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسی میں پاکستان کی بقاءاور سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں