حالیہ دورئہ امریکہ سے واپسی کے بعد عمران خان بہت خوش دکھائی دے رہے تھے کہ انہوں نے نہایت کامیاب دورہ کیا جس میں انہوں نے نہ صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے کشمیر، طالبان اور پاکستان کی معاشی صورتحال پر اپنا واضح موقف پیش کیا اور وہ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ دوسری جانب پاک فوج کے چیف جنرل باجوہ بھی 21 توپوں کی سلامی ملنے کے بعد یہی سمجھے کہ اب معاملات حال ہوگئے اور امریکہ ہمارے سارے مسائل حل کردے گا اور ہم بھارت کے دانت کھٹے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر صدر ٹرمپ کے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے بیان کے بعد بھارت میں جس شدت کا ردعمل دیکھنے میں آیا شاید اس کی توقع کسی کو نہ تھی دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے ظلم کی انتہا کردی اور کشمیر میں آج کرفیو جیسی صورتحال ہے۔ بھارتی لوک سبھا نے کشمیر کے معاملہ کو نہایت سنجیدگی سے لیا۔ صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دیا اور کشمیر کے معاملہ پر اپنے آئین سے شق 370 کو ہی نکال دیا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ صدر ٹرمپ جو اپنی ہر بات کا آغاز دھمکیوں سے کرتے ہیں بھارت کے ردعمل کے باوجود خاموش ہیں اور یوں محسوس ہورہا ہے کہ وہ چاہتے بھی یہی تھے کہ کشمیر میں آگ لگ جائے۔
اگر ماضی کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ امریکہ نے کب پاکستان کا برے وقت میں ساتھ دیا ہے۔ پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کی مدد کو آنے والا امریکی بحری بیڑا آج تک نہ پہنچ سکا۔ امریکہ اور اسرائیل کی کوشش بھی یہی رہی کہ خطہ میں بھارت اُن کا لے پالک بنے اور ایران، چائنا، پاکستان پر گہری نظر رکھے۔ امریکہ کی سب سے بڑی تکلیف سی پیک ہے۔ اور امریکہ کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ چائنا اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی بنیاد ڈال کر کسی طرح سی پیک پروجیکٹ کو کھٹائی میں ڈال دے۔ بعض لوگوں کے خیال میں صدر ٹرمپ کے ثالث بننے کی پیشکش میں ان کی گندی سوچ کا عمل دخل ہے کہ کسی طرح پاکستان اور بھارت کو جنگ کی جانب دھکیل دیا جائے۔ یا پھر بھارت کے ذریعہ پاکستان پر دباﺅ بڑھایا جا سکے اور یوں امریکی فوجوں کو بحفاظت امریکہ واپس لایا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرکے امریکہ کے لئے راہ ہموار کرے مگر بھارت کے ساتھ امریکہ ہی نہیں بلکہ یہودی لابی بھی سرگرم ہے اور یہودی کسی بھی طور پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے ہندوستانی ہائی کمشنر کو طلب کیا اور آرٹیکل 370 کی آئینی شق کو ختم کرنے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا مگر حیرت ہے کہ نہ تو امریکی صدر ٹرمپ نے کوئی واضح موقف اختیار کیا ہے اور نہ ہی دنیا کے دیگر ممالک نے بھارت کے اس فیصلہ کی مذمت کی ہے۔ حتیٰ کہ چائنا جس کے مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں اب تک کوئی بیان دینے سے گریز کیا ہے۔ ترک صدر طیب اردگان کو عمران خان نے فون کرکے تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور ترک صدر نے اپنے تعاون کا یقین بھی دلایا۔
واضح رہے کہ پاکستان ایک طویل عرصہ سے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی تنازع بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے تاہم اسے ابھی تک مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں عالمی حمایت نہ مل سکی ہے۔ عمران خان پاکستانی پارلیمان سے کئے گئے حالیہ خطاب میں شدید غصہ میں نظر آئے اور کہا کہ بھارت کو اس فیصلہ کے نتیجہ میں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلہ سے دونوں ممالک میں جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں دونوں ممالک کا نقصان ہوگا۔ مگر جیت کسی کی نہیں ہوگی۔ عمران خان نے بھارت کو مخاطب کرکے یہ بھی کہا کہ ہماری امن کی کوششوں کو ہماری کمزوری سے تعبیر نہ کیا جائے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور آرمی چیف باجوہ کے امریکہ کے دورہ کے نتیجہ میں حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید سنگینی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور امریکہ وہی چالیں چل رہا ہے جو وہ ماضی میں چلتا آرہا ہے۔ اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں اور عمران کے غصہ کے پیچھے بھی یہی راز پنہاں نظر آتا ہے کہ ”اُن کے ساتھ ہاتھ ہوگیا“۔
