پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ اس وقت ہچکولے کھا رہا ہے، ایسے لگ رہا ہے کہ وہ کسی بھی گر جائے گا کیونکہ کرکٹ کے گیند کی طرح سے ہر لمحے نت نئے شاہی فرمان جاری کئے جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ایک مچھر انسان کو ہیجڑہ بنا دیتا ہے بالکل اسی طرح سے سابق وزیر اعظم عمران خان کے ایک آرٹیکل نے ریت پر کھڑی پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کو گرا کر رکھ دیا ہے اور ان کا مکروہ اور گناہ آلود چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے کہ سچائی کیا ہے، پاکستان میں کس طرح کے الیکشن کروا کر ایک کنٹرولڈ ڈیموکریسی لانا چاہتے ہیں جس کا ریمورٹ بھارت اور امریکہ کے پاس ہو۔
عمران خان نے آرٹیکل نے پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کے لئے اتنی مشکلات کھڑی کردی ہیں کہ ان کے وزیر اطلاعات مسٹر سولنگ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور حواس باختہ ہو کر انہوں نے دی اکنامسٹ کو بھی غلطی سے پاکستانی جریدہ سمجھ کر ان کے ایڈیٹوریل بورڈ کو ڈرانے اور دھماکنے کی کوشش کی اور ان سے ایک طرح سے جواب طلبی کی کہ وہ کس طرح سے ایک مجرم کا کوئی آرٹیکل شائع کرسکتے ہیں لیکن دی اکنامسٹ نے بھی مسٹر سولنگی کی جانب سے بھجوائی جانے والی رپورٹ ان کے منہ پر دے ماری اور وہ بار بار اسی آرٹیکل کو ٹوئیٹر پر دی ٹوئیٹ کرکے رہی سہی کسر بھی پوری کررہے ہیں، کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے، لگتا ہے کہ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کے گرنے یا پھر اپنی موت آپ مرنے کا وقت آگیا ہے، اس لئے وہ اس طرح کی بے تکی اور غلط سلط حرکتیں کرکے خود کو پوری دنیا میں ایک تماشہ بنوا رہے ہیں اور خود ہی اپنی غلامی اور امریکہ و بھارت کے کالونی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کیونکہ کبھی بھی کسی آزاد اور خودمختار ملک میں اس طرح سے نہیں ہوتا جس طرح سے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ آزاد ملک اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، وہ دوسروں سے ڈکٹیشن نہیں لیتے اور عمران خان کی حکومت کو گرانے اور اسے جیل میں ڈالنے کی سب سے بڑی وجہ اس کے علاوہ کیا ہے کہ انہوں نے ایک خودمختار ملک کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے اپنے فیصلے خود کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ روسی صدر سے ملنا ان کا اپنا فیصہ تھا۔ یوکرین جنگ میں نیوٹرل رہنا ان کا اپنا فیصلہ تھا اور یہ کوئی جرم یا گناہ نہیں تھا کہ جس کی وجہ سے ان کی حکومت کو گرانا اور انہیں جیل میں ڈالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ جس طرح کا انتظامی ڈھانچہ ملک دشمنوں کے اشارے پر اس وقت بدنصیب پاکستان میں جو کچھ کررہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے رعایت کا مستحق نہیں۔ تاریخ انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ جس قسم کی صورتحال اس وقت ملک میں پیدا کردی گئی ہے یہ حالات 1971ءوالے حالات سے کہیں گنا زیادہ خراب ہیں۔ ان حالات کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگادیا گیا تھا۔ عوامی رائے کا احترام نہیں کیا گیا تھا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اس سے بھی زیادہ بری اور گندی صورتحال اس وقت ملک کی ہے، ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے، عدالتیں پولیس سب کی سب کنٹرولڈ کردی گئی ہیں، میڈیا کو خرید لیا گیا ہے، اسی وجہ سے تو اکنامسٹ میں عمران خان کا آرٹیکل توپ کا گولہ بن کر پاکستان کے انتظامی ڈھانچے پر جا کر گرا ہے۔ اس سے یقیناً انتظام چلانے والوں کے چاروق طبق روشن ہو چکے ہوں گے۔ پاکستانی قوم اب ماشاءاللہ بنگالیوں سے بھی زیادہ محب الوطن اور باشعور ہو چکی ہے وہ اب نہ تو جیلوں میں جانے سے ڈرنے والی ہے اور نہ ہی جھوٹے اور غلط گمراہ کن بیانوں کی زد میں آکر بہنے والی ہے بلکہ اپنی حقوق کی حفاظت کرنے والی ہے۔ ملک دشمنوں سے اور دشمنوں کے آلہ کاروں سے مقابلہ کرنے والی ہے، انہیں اب اچھی طرح سے معلوم ہو چکا ہے کہ خود اپنوں کے بھیس میں دشمن اس وقت کیا کررہے ہیں۔۔۔؟
پاکستان کی سپریم کورٹ کو ہی اس وقت اپنا کردار ادا کرکے ملک میں صاف و شفاف الیکشن کروانے کی ضرورت ہے، وہ بھی ساری سیاسی جماعتوں کو ان کے انتخابی نشانوں کے ساتھ انتخاب لڑنے کا موقع دینا چاہئے اگر سپریم کورٹ نے ایسا نہیں کیا تو پھر ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
104