جس طرح شہباز شریف حکومت دلیری سے فیصلے لے رہی ہے، اس سے صاف عیاں ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پوری یقین دہانی کروا دی گئی ہے کہ آپ کو اگلے چودہ ماہ کوئی نہیں ہلا سکتا۔ لہذا آپ آئی ایم ایف سمیت تمام اہم فیصلے لیں اور اس میں عدلیہ اور انتظامیہ بھرپور طریقے سے ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔ شہباز شریف حکومت کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے کہ وہ ہر جائز و ناجائز کام کر گزریں، آپ کو پورا تحفظ حاصل ہے۔
عمران خان کی ضد اور انا تو مشہور ہے اور ہر اس شخص کو معلوم ہے ہے جو اسے جانتا ہے، کسی کی موقع پر یہ دونوں صفات کام کر جاتی ہیں مگر ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا، خان کی پالیسی یہ ہے کہ جمہوریت آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے حکومت کو مجبور کریں کہ وہ عام انتخابات کا اعلان کرے۔
پاکستان جیسی جمہوریتوں میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں وہ ہوتا ہے جو پی ڈی ایم نے آصف زرداری کے مرتب کردہ پلان کے مطابق کیا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر پی ٹی آئی کے ممبران کو خریدا یا توڑا اور پھر حکومت کی اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا تو یہ غلط نہ ہوگا۔
آج پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی استعفیٰ دے کر قومی اسمبلی سے باہر ہو چکی ہے اور جلسوں کی صورت میں عوام کو متحرک کررہی ہے اور بتا رہی ہے کہ کس طرح بیرونی سازش کے نتیجے میں اندرون ملک میر جعفروں کی مدد سے ان کی حکومت کو گرایا گیا، اس بیانیے کا اثر تو ہوا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جوش و جذبہ میں کمی واقعے ہونا شروع ہو جائے گی۔ جیسے اگر کسی کا بہت ہی قریبی خونی رشتہ دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کو صدمہ ہوتا ہے وہ پہلے دن اور ہوتا ہے، دوسرے دن کچھ کم، تیسرے دن لوگ اسی کے قل خوانی کے ختم پر بیٹھے لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں اور گھر والوں کا صدمہ بھی رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے اور یہ عین قانون قدرت ہے۔
لہذا خان صاحب کو چاہئے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور قومی اسمبلی میں واپس آئیں جہاں وہ اپوزیشن لیڈر کا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور حکومت کو یکطرفہ قانون سازی سے روک سکتے ہیں، زبردست احتجاج کرسکتے ہیں، اپنے ہی منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کروانے کے لئے شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتے ہیں، کیوں کہ اس وقت تک شہباز حکومت بہت سارے غیر قانونی کام کرچکی ہے جس پر کئی اتحادی جماعتوں کو تحفظات حاصل ہیں، عدم اعتماد میں اگر یہ اراکین پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دیتے تو پھر الیکشن کمیشن کا ٹیکنیکل بنیادوں پر ان کی رکنیت قائم رکھنے کا فیصلہ بدل جائے گا اور پھر قومی اسمبلی میں جی ڈی اے، مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی بھی آپ کا ساتھ دے گی۔ ان سب کے ساتھ مل کر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کریں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی آمد سے حکومتی اور منحرف اراکین کی صفوں میں دراڑ پڑ جائے گی کیوں کہ اب تک کی موجودہ حکومت کی کارکردگی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اس عمل کے بعد بھی عوام آپ کے ساتھ ہوں گے، گھبرانے کی ضرورت نہیں، لوگوں کو آپ کی دیانتدارانہ قیادت پر اعتماد ہے۔
خدارا سولوفلائیٹ لینا چھوڑ دیں، پاکستانی سیاست اور پارلیمنٹ کا حصہ بنیں، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دوسری جماعتوں سے بات چیت کریں، اور حکومت پر پریشر بڑھائیں۔ خان صاحب اس تاثر کو زائل کریں کہ جس پارلیمنٹ نے آپ کو نکالا ہے آپ دوبارہ اس کا حصہ نہیں بنیں گے اگر نئے انتخابات بھی ہو جائیں تو تب بھی ان ہی میں سے بہت سارے لوگ دوبارہ جیت کر آجائیں گے لہذا آپ کو پاکستان میں پاکستانیوں کے ساتھ ہی سیاست کرنا ہوگی۔
آپ کی حکومت نے اپنے دور میں بلاشبہ بے شمار قابل تحسین کام کئے ہیں، جن کی لمبی فہرست ہے اور عوام اب جان چکے ہیں کہ کون کرپٹ ہے اور کون دیانتدار، اس پر لوگ کلیئر ہیں۔ آپ پر کتنے حملے ہوئے، مگر سب اپنی موت مر گئے آپ کے وزراءمیں سے کسی پر کرپشن کا کوئی مقدمہ اب تک نہیں بنا، آپ کے دور میں معیشت بڑی اچھی رفتار سے اوپر جارہی تھی، جس کا اظہار حالیہ اکنامک سروے سے ملتا ہے۔
آپ کے مطابق اللہ آپ کو سب کچھ دے چکا ہے، تو پھر آپ اپنے لئے نہیں قوم کے لئے باہر نکلیں اور اپنا فیصلہ بدلیں کیوں کہ اسی سے الیکشن کی راہ ہموار ہو گی، اپنی بائیس کروڑ عوام کے لئے حالات کے مطابق حکمت عملی ترتیب دیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت آپ ایک دیوتا یا اوتار کی حیثیت اختیار کر چکے ہ یں، پوری دنیا میں بسنے والے پاکستانی اس حقیقت سے آشنا ہیں اور فکرمند ہیں کہ اگر یہ لوگ یونہی ملکی فیصلے کرتے رہے تو لوگ بھوکوں مر جائیں گے کیوں کہ ان کے اہداف کچھ اور ہیں یہ عوام کے لئے نہیں آئے بلکہ اپنے ذاتی کیسز ختم کروانے اور الیکشن ریفارمز کروانے کے درپے ہیں، نیب لاءتبدیل ہو چکا ہے، اوورسیز پاکستانیز اور ای وی ایم مشینوں کا قانون بھی ختم کردیا گیا ہے، ان کو روکنے کی اشد ضرورت ہے اور وہ قومی اسمبلی میں واپسی سے ہی ممکن ہے۔
223