نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 266

عمران خان کی پیدا کردہ مشکلیں۔۔۔!

میں کوئی عمران خان کا ورکر یا ان کا چاہنے والا یا پھر عقیدت مند نہیں ہوں۔ میں ایک سچا اور مخلص پاکستانی ہوں۔ جو دیکھتا ہوں اور جو میرا مشاہدہ ہوتا ہے، میں اسے ہی ضبط تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آج جو کچھ حکمرانی کے حوالے سے پاکستان میں ہو رہا ہے اسے بہت پہلے ہونا چاہئے تھا۔ اسے اگر 1947ءکا تسلسل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا اس دور میں اور آج کے اس طرز حکمرانی میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں جس میں کھوٹے سکے بھی شامل ہیں اس وقت کے حکمرانوں کی جیب میں اتنے کھوٹے سکے نہیں تھے جتنے آج عمران خان کی جیبوں میں ہیں۔ شاید یہ ہی اس نئی جمہوریت کا تقاضا ہے جسے پورا کئے بغیر حکمرانی کرنا یا پھر اقتدار حاصل کرنا ممکن نہیں جس کی وجہ سے عمران خان کو یہ کڑوا گھونٹی پینا پڑ رہا ہے۔ ایسے ایسے لوگوں کو وہ اپنے کارواں میں شامل کرنے پر مجبور ہے جو بقول خود عمران خان کے وہ تو ان کو چپڑاسی رکھنے کے بھی قابل نہیں۔۔۔!
اس طرح کے بہت سارے سیاسی یتیم اس وقت فصلی بٹیرے کی طرح سے اقتدار کی فصل کھانے کے لئے ان کے قافلے میں ہم خیال یا پھر جمہوری ضرورت بن کر شامل ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے غیر جمہوری مطالبوں فرمائشوں یا دوسرے معنوں میں انہیں بلیک میل کرنے کی صورت میں عمران خان کو ذہنی اذیت دے کر دشمنوں کو خوش کرنے کا سامان فراہم کررہے ہیں۔ میں پہلے بھی ان ہی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان ایک طلسماتی شخصیت ہیں انہیں سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے یعنی اتنا مشکل کہ خود ہمارے ملک کی حساس ایجنسیاں بالخصوص اور دشمن ملکوں کے پالیسی ساز بالعموم ابھی تک انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں وہ ان کے خیالات و ارادوں کو بھی ابھی تک نہیں سمجھ سکیں ہیں کہ وہ کیا ہیں۔۔۔؟ اور وہ کیا چاہتے ہیں ان کی باتیں انداز گفتگو سب کچھ بدل ڈالنے کا باعث بن جاتا ہے ان کے ترغیبی بیانات پالیسی سازوں کے برسہا برس سے بنائے گئے منصوبوں کو تیزی سے خاک میں ملانے کا سبب بن رہے ہیں وہ دوسروں کے اربوں ڈالروں کی انویسٹمنٹ سے تیار کردہ صورتحال کو اپنے سحر انگیز گفتگو سے خاک و خاشاک کی طرح سے بہا کر لے جا رہا ہے اس وقت عمران خان نے بیک وقت بھارتی حساس ایجنسی ”را“ اسرائیلی ایجنسی ”موساد“ اور برطانوی ایجنسی ”ایم آئی سکس“ کے علاوہ خود امریکی سی آئی اے اور پینٹاگون کو گتنی کا ناچ نچوا رہا ہے ان سب کو عمران خان نے اس وقت بڑی بڑی پریشانیوں میں مبتلا کردیا ہے اور ان کے اس کارناموں کا فی الحال تو کریڈٹ پاکستانی سیکیورٹی فورسز لے رہی ہیں حالانکہ ان کا اس میں ذرا بھی عمل دخل نہیں لیکن پھر بھی داد و تحسین ان ہی کے حصے میں آرہی ہے۔ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ شطرنج کی چال چلتے ہوئے عمران خان نے صرف پوزیشن تبدیل کروا دی ہے یعنی ظالم کو ظالم کی جگہ اور مظلوم کو مظلوم کی جگہ پر رکھ کر دنیا کو ان کی اصلیت بتلا دی ہے کہ بھارت میں ہندو ظالم ہے مظلوم نہیں اور اسرائیل فلسطین جنگ میں اسرائیل ظالم ہے مظلوم نہیں۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس سے میڈیائی کرشمے کی وجہ سے پوری دنیا اس حقیقت سے لاعلم تھی وہ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم سمجھ رہی تھی یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جو عمران خان نے سر انجام دیا کہ سچائی کیا ہے؟ اسی وجہ سے ان ملکوں کے حساس اداروں کے لئے بڑی مشکلیں عمران خان نے کھڑی کردی ہیں ان کی اس جرات اور بہادری نے ہی انہیں آج دنیا کے قد آور سیاستدانوں اور حکمرانوں میں لاکھڑا کردیا ہے۔
عمران خان نے اسی طرح سے خود پاکستان کی سیاست میں بھی ایک ہلچل مچا دی ہے۔ بڑے بڑے پنڈتوں کو انہوں نے سیاسی قبرستان میں زندہ درگور کردیا ہے ان کی سیاست کا جنازہ پورے دھوم دھام سے نکال دیا اور یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ پہلی حکومت ہے جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے۔ ان کا یہ جملہ جو طنزیہ ہے مگر اتنا زیادہ مشہور ہوا کہ پاکستانی سیاست کے جوڑتوڑ کا ایک بہت بڑا مہرہ پہلی بار اس طرح سے بے نقاب ہوا کہ انہیں ڈوبنے کے لئے چُلّو بھر پانی بھی نہیں مل رہا ہے اور اس کے بعد بھی ڈھٹائی کے ساتھ وہ مفت کی لسی پینے کے خواہش میں اب بھی جوڑ توڑ میں لگا ہوا ہے۔ انہیں عمران خان سے زیادہ خود ان کے ان اپنوں نے زخم دیئے جنہیں بلیک میل کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح سے زبردستی اقتدار میں شامل ہو کر کشمیریوں کے مستقبل سے کھلواڑ کرتے رہے۔ دس سال تک وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ایک وزٹ تک آزاد کشمیر کا نہ کر سکے ان اعلیٰ حضرت کی پوری مکروفریب میں لپٹی سیاست خطرہ میں پڑ گئی ان کی شہرت بہت ہی بُری طرح سے متاثر ہوئی ہے اور ان کی تمام کرپشن اور کمزوریاں بے نقاب کردی گئی ہیں اور بات اب ڈیزل سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ خود ان کی اپنی پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ نظریاتی ساتھی مولانا شیرانی کی سربراہی اور حافظ احمد کی قیادت میں آگے آگئے ہیں۔ یعنی پارٹی پر جو ان کا ایک تسلط تھا ایک طرح کی بے تاج اور بلاشرکت غیرے حکمرانی تھی وہ ختم ہوتی جارہی ہے ان کے سحر اور ان کے مکرو فریب پر مبنی گفتگو کے اثر سے ان کے عقیدت مند باہر نکل رہے ہیں۔ دوسرے معنوں میں ان کی پارٹی میں اب جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے اور اب پارٹی والے موروثی سیاست پر اور پارٹی کے سارے ٹکٹ اپنے ہی خاندان والوں میں تقسیم کرنے پر سوالات کھڑے کررہے ہیں؟ یہ سب کیا ہے؟ یہ سب عمران خان کا کرشمہ ہے ان کے ترغیبانہ گفتگو کا اثر ہے وہ لوگوں کو آگاہی دے رہا ہے انہیں ان کی اہمیت سے آگاہ کررہا ہے اور انہیں دوسرے کی خواہشات کا ایندھن بننے سے روک رہا ہے۔ اسی طرح سے ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی اور آصف علی زرداری کی پی پی پی کے فرق کو بھی وہ اجاگر کررہا ہے اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار سیاسی پارٹیوں کو بھی وہ دیوار سے لگانے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن اس سب کا جواب آزاد کشمیر میں ہونے والے حالیہ الیکشن اور اس کے نتائج دیں گے کہ ملکی عوام اور خاص طور سے آزاد کشمیر کے کشمیری اب بھی کسی ملک دشمنوں کے سحر میں ہیں یا پھر وہ زمینی حقائق کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں یہ تو کشمیر کے انتخابی نتائج سے پتہ چلے گا فی الحال تو عمران خان کو آزاد کشمیر کے عوام کے زخموں اور دکھوں کا مداوا بننے کی ضرورت ہے اسی میں کشمیریوں کی آزادی اور خودمختاری مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں