بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 166

عمران خان گرداب میں

حکومت کے خلاف بیک وقت اور اچانک کئی محاذ کھل چکے ہیں خصوصاً روس کا دورہ کرنے کے بعد اور امریکہ کو ہری جھنڈی دکھانے کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ نے بھی اپنے گھوڑے دوڑا دیئے ہیں کیونکہ دو سپرپاورز کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی میں پاکستان کو بھی پارٹی بننا پڑ گیا ہے۔ یوں دنیا بھر کی سیاست میں ایک بھونچال آچکا ہے۔ یوں روس امریکہ کی بقاءکی جنگ میں دیکھنا یہ ہے کہ کون کون سے ممالک کی بَلی چڑھتی ہے۔
پاکستان معاشی طور پر نہایت کمزور ملک ہے اور ہماری معیشت کا انحصار یورپی ممالک، امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے پاکستانیوں کے زرمبادلہ اور ان ممالک کی ایکسپورٹ پر ہے۔ اگر پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کر دی گئیں تو کیا پاکستان ان مشکلات کا سامنا کر سکے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ روس تو اپنے اوپر لگائی گئی پابندیوں کا منہ توڑ جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے اور وہاں میر جعفر اور میر صادق بھی نہیں ہیں جب کہ پاکستان میں تو قدم قدم پر بکنے والے اپنا منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ کئی فوجی جرنیل، کئی سیاستدان، کئی میڈیا کے مالکان، جج صاحبان اور بیوروکریٹس امریکہ کے پے رول پر موجود ہیں۔ گزشتہ 70 سالوں میں ہم نے امریکہ پر مکمل انحصار کیا ہے اور امریکہ کا جس قدر اثر و رسوخ ہمارے ملک میں ہے، روس کا نہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کیونکر ان تمام سازشی عناصر کا مقابلہ کریں گے؟ عمران خان کا ڈٹ کر کھڑا ہونا بھی غلط نہیں کہ امریکہ سرکار نے پاکستان کو اس کی خدمات کا کیا صلہ دیا بلکہ یوں کہیے کہ ہم صلہ مانگنے والے ہوتے کون ہیں؟ ہم تو کرائے کے ٹٹو ہیں۔ ہم نے تو پیسہ لے کر اپنے ملک کی ہمیشہ سودے بازی کی ہے۔ اب تو ہمارے فوجی جرنیل بھی اپنی اقدار کھو چکے ہیں، وہ میدان میں لڑنے کا ہنر بھی ضائع کر چکے ہیں اور اندرون ملک سے پیسہ بٹورنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسے حالات میں کس طرح اور کیونکر ان حالات سے عہدہ براں ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ عوام منجدھار میں پھنس چکی ہے۔ ایک جانب وہ لٹیرے ہیں جنہوں نے 70 سالوں میں ملک کو مقروض کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری جانب عمران خان ہیں جو بہادر بھی ہیں اور شاید سنجیدگی سے عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی ٹیم ہی ان کے خلاف کھڑی ہو چکی ہے۔ اس میں ان کی بھی غلطیاں ہیں کہ انہوں نے اپنے پارٹی کے لوگوں سے بھی قطع تعلق کرلیا اور تنظیمی طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
مارچ کا مہینہ یا تو ملک کو نئی مشکل سے دوچار کردے گا یا پھر تمام مشکلات سے نکال کر اسے دُرست سمت میں ڈال دے گا۔ جس کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ پاکستان ان معاملات سے خوش اسلوبی سے عہدہ برا ہو سکے، آمین اور اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر سکے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں