عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 638

فلاحی سفر کا آغاز

لگتا ہے پاکستان میں انسانیت کا سورج طلوع ہونے جارہا ہے جس کی ابتداءیا شروعات سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے بے گھر لوگوں کے بے دخلی سے کردی گئی ہے۔ اس کارروائی سے ریاست مدینہ کی ہلکی پھلکی جھلک مجھے اپنے کمزور نگاہوں سے صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اس موقعہ پر مجھے حضرت عمرؓ کا وہ تاریخی جملہ یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”اگر دریائے نیل کے قریب کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کا ذمہ دار حضرت عمرؓ ہوگا“۔ قیام پاکستان کے 71 برسوں کے بعد عمران خان کی یہ پہلی حکومت ہے جس نے انسانیت کے لئے نہ صرف سوچا ہے بلکہ کچھ کرنے کا عزم بھی دکھلایا ہے۔ پاکستانی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اور اپنوں کے ستائے ہوئے لوگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا بلکہ سب کچھ بھی یہ سڑکیں اور فٹ پاتھ ہی تھے۔ موجودہ حکومت نے ان بے گھر اور اپنوں کے دھتکارے ہوئے لوگوں کے دکھوں اور تکلیفوں کا احساس کرتے ہوئے انہیں نہ صرف سینے سے لگایا بلکہ انہیں سرکاری سطح پر رہنے کے لئے عارضی کیمپ، اوڑھنے کے لئے کپڑے اور پیٹ بھرنے کے لئے کھانے کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی بھی فراہم کرنا شروع کردی ہیں۔ ملک میں ان گنت مذہبی اور سیاسی جماعتیں سالہا سال سے کام کررہی ہیں اور کئی بار انہیں حکومتی باگ دوڑ سنبھالنے کا موقع بھی ملا لیکن افسوس کسی ایک نے بھی معاشرے کے ستائے ہوئے ان لوگوں کے لئے کچھ نہ کیا بلکہ ان میں سے تو بعض نے عید اور دوسرے تہواروں کے موقع پر ان بے گھر افراد کے خلاف گداگری ایکٹ کے تحت کارروائی کرکے ان پر پولیس گردی کرتے ہوئے مزید ستم ڈھائے۔ اسی لئے میرے نزدیک یہ بہت بڑی عبادت اور یہ اس حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے اگر اسے موجودہ حکومت کی سو روزہ کارکردگی کا یہ سب سے بڑا کارنامہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہم احساسات اور جذبات سے محروم لوگ ہیں اسی لئے ہمارے میڈیا کو بھی اس طرح کے حکومتی امور میں کوئی کشش دکھائی نہیں دے رہی۔ اس لئے وہ اس بڑے حکومتی کارنامے کو صرف نظر کیے ہوئے ہے۔
ہمارا میڈیا میٹرو اور اورنج ٹرین کے کارناموں کو دکھانے کا عادی ہو گیا ہے اسی لئے انہیں دکھتی انسانیت کے یہ مسائل بالکل بھی نظر نہیں آرہے اور وہ اس حکومتی کارروائی کو خانہ پری سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے جب کہ مغربی دنیا میں اسی طرح کے فلاحی کام ہی حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی کی وجوہات بنتے ہیں۔ اسی طرح سے حکومت نے مذہب کے کاندھے پر ملکی سلامتی سے کھلواڑ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرکے انتہائی جرات مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ وہ کام تھا جو ملک کی تجربہ کار سیاسی جماعتوں کے ذریعے بننے والی تجربہ کار حکومتیں بھی کرنے سے گھبراتی تھیں اور ان کا رویہ ان کے ساتھ ہمیشہ سے معذرت خواہانہ رہا ہے۔ جسے اس نوزائیدہ حکومت نے چٹکی بجا کر حل کردیا۔ جی ہاں میں ذکر اس مذہبی جماعت کا کررہا ہوں جو ملک دشمنوں کی آلہ کار بنی ہوئی ہے اور ملک دشمنوں کے ایجنڈے پر سیکورٹی فورسز اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف ملکی عوام میں نفرت پھیلاتی رہی ہے اور وہ پورے ملک میں لاقانونیت پیدا کرنا چاہتی تھی یہ سب کارنامے نہیں تو اور کیا ہیں؟ اس کے باوجود اپوزیشن پارٹیاں اور ان کے ہم کاسہ صحافی حکومت پر آئے روز تنقید کرتے ہیں ایسا کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ وہ کتنا بڑا جھوٹ بول رہے ہیں حالانکہ وہ دل میں اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ عمران خان سب کچھ ملک اور عوام کی فلاح و بہتری کے لئے کررہا ہے۔ لیکن وہ اپنے قائدین کو سیاسی موت سے بچانے کے لئے موجودہ حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ سیاسی تابوتوں کے نکلنے کا موسم آگیا ہے۔ یہ موسم کتنے سیاستدانوں کو تابوتوں میں ڈالے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا؟ فی الحال تو موجودہ حکومت کے ہاتھوں اس طرح کے کام ہونے جارہے ہیں جن کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا اور کسی کے خیال و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عمران خان بھی کبھی پاکستان کے وزیر اعظم بنے گے؟ اور میثاق جمہوریت کے ٹوپی ڈرامے کے نتیجے میں ایک دوسرے کو باریاں دینے والے خود کو ایک ہی قطار میں قانون اور آئین کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ بالکل بھی نہیں۔ لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کے 100 دنوں میں سو جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوا یہ کہتے ہوئے ان لوگوں کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ عمران خان نے جتنا کام سو دنوں میں کیا وہ تو باریاں لگانے والے اپنے دس سالوں میں بھی نہیں کر پائے لیکن افسوس کہ ان کے پاس وہ نگاہ ہی نہیں جن سے انہیں عمران خان کے کارنامے نظر آئیں لیکن ملکی عوام اتنے بھی بے وقوف نہیں رہے، جنہیں کچھ نظر نہ آتا ہو، سب کو معلوم ہے کہ ملک میں حقیقی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ملک ایک درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ملک میں حب الوطنی اور خودمختاری کے ساتھ ساتھ قانون و انصاف کا گراف اونچا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والے ہی قانون کی حکمرانی سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں۔ وہی اپنے اپنے طور پر قانون کو دبانے اور اسے کچلنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ جس طرح سے ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والی مذہبی جماعت کے خلاف کامیاب ترین کریک ڈاﺅن کیا ہے اسی طرح سے فاٹا کے علاقے میں سرگرم ملک دشمن تحریک کو بھی فوری طور پر کچل دیں جو افغان اور ”را“ دہشت گردوں کے ساتھ مل کر ملک کی سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر افشانی کررہے ہیں اور ملک میں افراتفری پھیلانے والوں کی سرپرستی بھی کررہے ہیں۔ حکومت کو ان کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کرنا چاہئے جو مسلسل بدامنی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستانی قوم اس طرح کے ملک دشمنوں سے نجات میں ہی پاکستان کی بقاءخیال کرتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں