۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 737

”فلیش بیک“ ۔ (2)

ناظرین باتمکین جو فلم ان دنوں آپ دیکھ رہے ہیں جس میں رومانس، ماردھاڑ، سسپنس، کامیڈی کے ساتھ ہیرو، ہیروئن، کامیڈین، ولن غرض کہ بارہ مصالحہ کی کھڑکی توڑ اس فلم میں جس نے اربوں کھربوں کا ”بزنس“ کیا ہے اور اس میں اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ اداکاروں کے وارے نیارے ہوگئے ہیں کی فلیش بیک آپ کی خدمت میں پیش ہے اس فلم کو چلتے ہوئے ستر سال سے زائد ہوگئے ہیں جو کہ اگتھا کرسٹی کے ڈرامے ”اﺅس ٹریپ“ کا ریکارڈ بھی توڑ چکی ہے جو لندن میں محض تین دہائیوں سے روز اوّل کی طرح رش لے رہا ہے تو آج ہم آپ کو اس فلم کے ”چالو“ ہونے کے 9 سال بعد کی جھلکیاں دکھانے جارہے ہیں جس کے پروڈیوسر، ڈائریکٹڑ اس دنیا سے رُخصت ہوچکے ہیں اور یہ فلم اب نئے آرٹسٹوں کے ساتھ کامیابی سے لوگوں کے دلوں اور جیبوں کو گرما رہی ہے۔ اس فلم کے پچھلے پارٹ میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح سے لاکھوں ایکٹر ”مہاجرین“ کے رول میں پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہو گئے یہ سارے کے سارے وہ کردار تھے کہ جن کے رول بے حد اہم تھے مگر یہ خود سے بے خبر تھے اور محض بڑے بڑے کرداروں کے ایک قسم کے ”فٹر“ تھے جن کے سہارے بڑے فنکار کردار ادا کرتے ہیں۔ فلم میں ان کی اہمیت کبھی کبھی محسوس ہوتی ہے جیسے کہ کوئی جلسہ دکھانا ہو یا سڑکوں پر مظاہرے کرکے پولیس سے لاٹھیاں کھانی ہوں یا آنسو گیس کے بعد روتے ہوئے گھروں کی طرف بھاگتے ہوئے نظر آئیں یا کبھی کبھی فلم میں اصلیت کا رنگ بھرنے کے لئے انہیں سچ مچ کی گولیاں کھا کر سچی سچی کا مرنا دکھانا ہو۔ اس طرح یہ کٹھ پتلیوں کی طرح دوسروں کی انگلیوں پر ناچتے ہوئے بچوں کو بہت اچھے لگتے ہیں جب کہ بڑے ان کی اصلیت جانتے ہیں وہ انہیں زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔ سو اب فلم کے نئے سین میں ایک نیا سین آرہا ہے یہ سین ہے انسانیت کا یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمان قوم کہلاتے ہیں ان کو سمجھنا انسان نہیں ہے یہ بالکل الف لیلیٰ کے کرداروں کی طرح لگتے ہیں جیسے کہ قصہ الف لیلیٰ ”سوتے جاگتے“ کا ابھی فلم کو شروع ہوئے محض نو سال ہوتے ہیں کہ ناظرین کرام اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کل جس تلنگے کو آپ جوتیاں چٹختے ہوئے پھرتے تھے اور ہما شما میں شمار ہوتے تھے آج مرکزی وزیر ہیں یا کروڑ پتی بن گئے اور پورے ملک کی قسمت ان کے ہاتھوں میں ہے وہ جو کل تک اس قابل نہ تھے کہ جس کی بات قابل اعتناءہوتی وہ آج بین الاقوامی معاملات فراٹے دار گفتگو فرما رہے ہیں۔ کل تک جن کی مار اپنے شہر سے باہر کی بھی نہیں تھی آج اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں ملک کی نمائندگی فرما رہے ہیں۔ یہ لوگ بزعم خویش افلاطون بنے ہوئے ہیں۔ کل تک جو ہندوستان میں بیٹھ کر اس ملک کے قیام کو کفر قرار دیتے تھے اور ہندوﺅں میں بیٹھ کر پاکستان بنانے والوں کو غدار اور ہندوستان کے دشمن قرار دیتے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا ہے ہندو بنیا اب ان کے سروں پر چڑھ کر ان کی ایسی تیسی کرنے والا ہے اور جن جاگیروں اور زمینداروں پر ان کی ساری شان و شوکت کا دارومدار ہے اور اب سردار پٹیل ان کو ہڑپ کرنے والا ہے اور وہ والیان ریاست جنہوں نے انگریزوں کے تلوے چاٹ چاٹ کر ”سر“ کے خطاب حاصل کئے اور اپنی رعایا کو اپنے پاﺅں کی جوتی سمجھا اس نے اس میں عاقبت جانی کہ قبل اس کے پانی سر سے گزر جائے، بھاگ لو، تو وہ اپنے خزانوں کو لے کر نکل لئے، وہ سیاسی بونے جو کانگریس کے پٹھو بنے ہوئے تھے جب انہیں ہندوﺅں نے ان کی اوقات یاد دلائی تو وہ بھی جوتیاں بغل میں دبا کر اس نئے ملک میں آگئے اور یہاں آ کر جو انہوں نے بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگائیں تو ان کے چوبارہ ہوگئے۔ ادھر وہ طبقہ جو ہندوﺅں کے ساتھ صدیوں سے جوتے کھا رہا تھا جو اپنے بیٹوں کو گروی رکھ کر ہندوﺅں سے قرض لیتے تھے ان کی تو خدا نے سن لی انہوں نے ہندوﺅں کی زرعی زمینوں، جانداروں اور ان کے مِلوں اور کارخانوں پر قبضے کرلئے اور پھر سیاست میں گھس کر وزارتیں حاصل کیں اور نا اہل عزیز رشتہ داروں میں سرکاری اعلیٰ عہدے اپنے قبضے میں کرلئے۔
ادھر پاکستان میں تو لوٹ مچی ہوئی تھی ادھر ہندوستان پوری کوشش کررہا تھا کہ پاکستان بننے اور تقسیم کی مخالفت کرکے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کررہا تھا۔ پاکستان میں حالات باگفتہ بہ تھے۔ مراعات یافتہ طبقہ تو عیش و عشرت میں مبتلا تھا تو ملک کے حالات سے لوگ نالاں تھے۔ اقتصادی مشکلات، رشوت ستانی، اقربا پروری، بے ایمانی، چار سو بیسی، سیاسی غنڈہ گردی سے لوگ عاجز آگئے تھے اور ان کے دلفریب خواب چورا چورا ہو چکے تھے (یہ ملک بننے کے صرف 9 سال بعد کے مناظر میں جو فلیش بیک میں پیش کئے جارہے ہیں اصلی فلم تو بعد میں پیش کی جائے گی)۔
رات دن لوگوں کے درمیان یہی موضوعات تھے کہ ادویات کی بلیک مارکیٹ ہوتی ہے، کوئی جائز کام بغیر اثر و رسوخ اور رشوت کے نہیں ہوتا۔ انہیں علم تھا کہ اوپر سے نیچے تک بے ایمانی کا دور دورہ ہے۔ عوام یہ جانتے تھے کہ ان کے لیڈر کتنے پانی میں ہیں تو لیڈروں کو معلوم تھا کہ عوام کو کس طرح سے احمق بنایا جا سکتا ہے انہیں ایسے چند گُر یاد تھے جن کے ذریعہ عوام کو قابو میں لایا جا سکتا تھا۔ اسی وقت یہ پتہ چل گیا تھا کہ ”تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے گرے ہوئے کردار کا ثبوت نہیں دیا (ابھی آنے والے وقت میں یہی مسلمان اپنے ہی ریکارڈز کو ریزہ ریزہ کرنے والے تھے) لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں کو آزادی اور اقتدار ملا تو اس نے من حیث القوم اتنے گھٹیا پن کا مظاہرہ کیوں کیا؟ تو معلوم ہوا کہ شروع کے دو تین سال میں جس قدر جوش و خروش طاری تھا۔ اب اس سے کئی گنا مایوسی تھی ابھی ہی سے لوگ کہنے لگے تھے کہ ہمیں غیر ممالک میں خود کو پاکستانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ (آنے والے وقت میں یہ شرم لوگوں کو خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی آنے والی تھی) اور یہی احساس پوری قوم میں پیدا ہو گیا تھا۔ ادھر اعلیٰ مراعات یافتہ یا نودولتیے یا ابن الوقت طبقہ عیش و عشرت میں مشغول تھا۔ شراب و شباب ان کی کمزوری تھی جو انہیں مملکت اسلام پاکستان میں با افراد حاصل تھیں۔ شراب کی پارٹیوں میں لوگ اپنا اپنا مستقبل بناتے تھے۔ ووٹروں کا لین دین اعلیٰ عہدوں کے حصول کی تگ و دو، مکانوں اور زمینوں کے الاٹمنٹ کے کاروبار عروج پر تھے۔ گویا اس جنگ میں جنگل کا قانون نافذ تھا۔ لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح سے زیادہ سے زیادہ سمیٹیں اور کس طرح سے دولت مند سے دولت مند ترین بن جائیں۔ ان کی ہوس کی کوئی حد نہیں تھی، نہ صرف مالی حالات بدل رہے تھے بلکہ اپنے خاندانی شجرے بھی تبدیل کررہے تھے۔ کل تک نچلی ذات والے راتوں رات اعلیٰ ذات کے تمغے سینے پر سجا کر گھروں کے باہر اعلیٰ ذاتوں کے بورڈ لگا کر اپنی دانست میں ساتویں آسمان پر براجمان ہوگئے تھے۔ ابھی آگے چل کر اور بہت کچھ ہونے والا تھا، یہ تو ابھی بیجوں میں سے پودوں نے سر اُٹھایا ہے، آگے ان کی اولادیں کیا کرنے والی ہیں ۔ حضرات یہ آئندہ کے ”سین“ میں دکھایا جائے گا۔ (جاری ہے)
نوٹ: قرة العین حیدر کی کتاب ”آگ کا دریا“ سے اکتساب کیا گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں