۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 174

فلیش بیک

بے نذیر، بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں پاکستان میں آج بھی لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ان کا قتل ایک ایسے شخص نے کرایا جو حصول اقتدار، دولت کی ہوس اور اپنی جبلی فطرت کے تحت کچھ بھی کر سکتا ہے اور یہ کوئی معمہ نہیں ہے، ساری دنیا میں قتل کی وارداتوں میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قتل سے زیادہ فائدہ کس کو ہو سکتا ہے اور یہ بات ایک معمولی عقل رکھنے والا بھی کر سکتا ہے۔ ایک ایسا شخص جسے اس کی بیوی نے اس حد تک نظر انداز کر دیا تھا کہ اسے اس ملک میں آنے کی اجازت نہیں تھی جہاں اس کی بیوی وزیر اعظم تھی اور جہاں اس کی بیوی کے بھائی کو ان لووں نے سر عام قتل کردیا ہو جو اس کے زرخرید تھے جس کی وجہ اس شخص کی وہ بے عزتی تھی جو مقتول نے ایک ایک مونچھ کاٹ کر کی تھی اور اس کا بدلہ اس نے اس کی جان لے کر کیا۔ یہ وہ شخص تھا کہ کوئی معاملہ اس کی بیوی کی جائیدادوں کی خرید و فروخت کا ہو یا سیاسی معاملات ہوں، گفت و شنید اس میں شرط اول یہ ہوتی تھی کہ وزیر اعظم کا شوہر اس میں شامل نہ ہو گا اور وہ فرد جس نے بیوی کے اقتدار کے ادوار میں دفاعی سودوں میں کک بیک لیا ہویا ملک میں طاقت کے زور پر لوگوں کی جائیدادیں قبضے میں لی ہوں، یہ وہ شخص جو ہاشوانی جیسے کاروباری کی زمینوں کو اپنے من مانے بھاﺅ پر حاصل کرنا چاہتا ہو اور انکار کی صورت میں اسلام آباد میں اس کے ہوٹل کو بم سے اڑا تھا، یہ وہ شخص جس نے ڈیفنس میں اپنے گھر کے اطراف کے اٹھارہ مکانوں کو برائے نام حاصل کیا اور ایک عوامی شاہراہ کو دیوار بنا کر ہڑپ کرلیا اور سب سے بڑھ کر مقتولہ بیوی کے مرنے کے بعد اس کا پوسٹ مارٹم نہ ہونے دیا ہو اور سب سے اہم ترین بات اور مرنے والی کی موت سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے ایک غلط انگریزی میں ہاھ سے لکھی ہوئی وصیت لہرا کر خود کو اس کا جان نشین قرار دے کر اس کی جائیداد پر قبضے، اس کے غیر ملکی بینکوں میں جمع اربوں روپیہ اور یہ کہ ملک کی بڑی پارٹی پر قبضہ اور پھر صدارت پر براجمان ہو کر قوم کو لوٹ کر کنگال کرنے جیسے مفادات حاصل کئے۔ یہی نہیں بلکہ اپنی اولاد کے نام کے ساتھ اپنی ولدیت کے بجائے مقتولہ کا ”برانڈ نام“ لگا دیا ہو۔
اب یہی شخص ایک بار پھر اپنی دولت، غیر ملکی طاقتوں کا گماشتہ بن کر اور پاکستان کے دشمنوں کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے کی سازش کررہا ہے اور اس سلسلے میں اپنے “Guy” بیٹے کو سامنے لایا ہے جس کا مشکوک کردار کوئی راز کی بات نہیں ہے اس کا انگریز دوست بلاول ہاﺅس میں رہتا ہے جسے کروڑوں روپیہ کچھ نام نہاد سرکاری ٹھیکے دیئے گئے ہیں اس کی سازشوں میں اقتدار کی بھوکی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں اور ایک ایسی پارٹی جس کا سربراہ تا عمر نا اہل قرار دیا جا چکا ہے اور فرار ہو کر لندن سے زہر اگل رہا جس کا اس کی لڑکی جسے بھی سیاست سے نا اہل کر دیا گیا ہے پورے زور و شور سے اس ٹولے کا ساتھ دے رہی ہے اور اس میں ایک نام نہاد مذہبی عالم جس کے پاس اربوں روپیہ کی جائیدادیں موجود ہیں بعض غیر ممالک کے اشارے پر مذہب کے نام پر انارکی پھیلا رہا ہے ان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ اس بڑے مجرم نے اپنے آپ کو بیوی کے قتل سے بری الذمہ ہونے کے لئے بین الاقوامی سطح پر شاطرانہ چالیں چلنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس میں یقیناً اس کا یہودی لابسٹ امریکن باشندہ، حسین حقانی جیسا غدار وطن اور نجم سیٹھی جیسے بھارت کے وفادار شامل ہو سکتے ہیں جو اس سے قبل ریحام خان کے نام سے ایک کتاب لکھ کر عمران خان کی کردار کشی کی کوشش کا ارتکاب کر چکا ہے اب
OWEN BENNETT JONES کی ایک کتاب
The Struggle Bhutto for power سامنے آئی ہے جس میں اس نے بے نظیر بھٹو کے قتل کو کسی ہالی ووڈ فلم کی کہانی کے انداز میں بیان کیا ہے اس 1413 سال کے دو لڑکوں کو قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک لڑکے نے تین فائر کرے، بے نظیر کو قتل کیا پھر خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور یہ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ جس سے پجارو کے چاروں ٹائر پھٹ گئے۔ یہ ایک نئی کہانی رچائی گئی ہے جب کہ اس قتبل جتنی بھی تحقیقات ہوئی ان میں مسحود کا ذکر ہے یہ دو لڑکے اب متعارف کرائے جارہے ہیں۔
اس قت کی واردات کی ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ایک لمبا تڑنگا آدمی پستول سے فائر کررہا ہے جس کے بعد ایک شدید ترین دھماکہ ہوا جو کسی بھی خودکش کا نہیں ہو سکتا تھا پھر وہ فون جس میں بے نظیر سے کہا گیا کہ عوام اسے دیکھنے کے لئے بے تاب ہیں ایک بار گاڑی سے اپنا سر باہر نکال کر انہیں اور مجھے دکاﺅ اور جیسے ہی وہ گاڑی سے اپنا سر باہر نکالتی ہیں گولی مار دی جاتی ہے، ابھی تو ناہید خان زندہ ہے اور وہ موبائل بھی غالباً اسی کے پاس ہے پھر کتاب میں لکھا گیا کہ گاڑی کے سارے ٹائر پھٹ گئے اور گاڑی کو محض رنگز پر چلاتے ہوئے اسپتال کی طرف چلے مگر کتاب میں بھی مذکور اس مرسڈیز کا ذکر نہیں کیا گیا جو بلاول ہاﺅس سے بے نظیر کی گاڑی کے پیچھے تھی جس میں رحمن ملک سوار تھا وہ اس کے بعد غائب ہو گئی جب کہ رحمن ملک سیکیورتی انچارج تھا۔ کتاب کا مصنف لکھتا ہے کہ سیکیورٹی والے جانتے تھے کہ خودکش حملہ آور جوتے پہن کر حملہ کرتے ہیں لہذا خود کش بمبار نے چپل پہن رکھی تھی یہ اس قدر احمقانہ باتیں ہیں کہ جسے ایک عام آدمی بھی یقین نہیں کرے گا بلکہ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ خالد شہنشاہ اور پانچ دیگر افراد کو یہ کام سونپا گیا تھا جنہیں بعد میں یکے بعد دیگرے قتل کردیا گیا تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ بچے، اب وہ بات جو سب سے زیادہ اہم ہے اور وہ شخص لاکھ منافقت کے دستانے پہن لے مگر آستین کا لہو پکارے گا۔
جس 27 دسمبر 2007ءکو بے نظیر قتل ہوئی ہے اس رات کو کراچی میں بے شمار افراد قتل ہوئے، بے شمار خواتین کی آبروریزی کی گئی، سینکڑوں کاروں کو جلایا گیا، سینکڑوں اے ٹی ایم مشینوں کو توڑ کر لوٹ مار کی گئی اور سینکڑوں کی تعداد میں ٹرالرز کو توڑ کر ان کا مال اسباب لوٹا گیا۔
اس مقصد کے لئے سندھ بھر سے بہت بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد کو کراچی لایا گیا اور جیسے ہی بے نظیر کے قتل کی خبر آئی انہوں نے کراچی میں اپنا وحشیانہ کام شروع کردیا اس کا صرف اور صرف ایک مقصد تھا کہ بے نظیر کے قتل کی خبر سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جائے، کسی کو کچھ سوچنے سمجھنے کا موقعہ نہ ملے اور سندھ والوں کو تو صرف یہ کہنا کافی تھا کہ غیر سندھیوں نے بے نظیر کو مار دیا۔
میں 27 دسمبر کی شام حج کرکے واپس کراچی آرہا تھا کہ جدہ کے حج ٹرمینل میں ایک پٹھان نے مجھ سے کہا کہ ”وہ کتی مر گیا“ میں نے کہا کہ کون تو بولا وہی بے نظیر، میں شدید حیرت میں ڈوب گیا اور یہ کہہ کر چلا گیا، ساری رات عجیب سا ملجان رہا، جب صبح کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو دیکھا کہ ویرانی ہی ویرانی ہے۔ البتہ عالمگیر تحریک کے چند بزرگ وہاں موجود تھے انہوں نے بتایا کہ شہر کی صورت حال بے حد خراب ہے، ہم نے یہاں بستروں کا انتظام کیا ہے، آپ آرام کریں اور کچھ دیر بعد وہ میرے لئے چائے لے کر آئے، جسے پی کر کچھ سکون ہوا، موسم بھی خاصا سرد تھا اور شہر سے کسی کے آنے کی امید نہیں تھی، اتنے میں ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ان کی اہلیہ انہیں لینے آرہی ہیں، آپ ہمارے ساتھ چلئے گا، آپ کو پہنچا دیں گے، تھوری دیر کے بعد وہ خاتون آگئی، میں گاڑی میں ان کے ساتھ روانہ ہوا، راستے میں جلی ہوئی گاڑیاں اور دوکانوں کے ٹوٹے ہوئے دروازوں سے ایسا لگا گویا کسی دشمن نے تاخت و تاراج کیا ہے، پورے راستے عجیب وحشت طاری تھی، سڑکیں سنسان پڑی تھیں، یہ منظر شاید کبھی فراموش نہ کر سکوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں